• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضورﷺکااورگنبدخضری کاسایہ

استفتاء

(1)کياہمارے نبی ﷺکا سایہ تھا ؟(2)اورکيا گنبد خضری کا سایہ ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1:کتب حدیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آ پﷺ کا سایہ مبارک تھا ۔

چنانچہ مسند احمد کی ایک طویل روایت ہے:رقم  الحديث :25002

 فبينما انا يوما بنصب النهار اذ  انا بظل رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا

ترجمہ: میں اسی حالت میں تھی کہ اچانک ایک دن دوپہر کے وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ دیکھا جو میری طرف آ رہا تھا۔

دوسری روایت ( رقم الحديث26866) کے الفاظ یہ ہے

فلما كان شهر ربيع الاول  دخل عليها فرايت ظله فقالت ان هذا لظل الرجل وما يدخل على النبي فمن هذا ؟فدخل النبي صلى الله عليه وسلم

ترجمہ:جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ میرے پاس آئے فرماتی ہیں کہ جب انہوں نے کہا کہ یہ سایہ تو مرد کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوگئے۔

اسی طرح  صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت(رقم الحديث: 892) میں آتا ہے:

حتى رايت ظلي وظلكم

ترجمہ: یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا۔اور جس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ ہونے کا  ذکر ملتا ہے:

وه یہ ہے، خصائص کبریٰ: ج1ص71

اخرج الحكيم الترمزي من طريق عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن

عبد الملك بن الوليد  عن ذكوان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرى له ظل  في شمس ولا قمر

ترجمہ: حکیم ترمذیؒ نے ذکوان کےحوالے سے یہ روایت کی  ہے کہ آنحضرت کا سایہ نہ تو سورج میں نظر آتا تھا اورنہ چاند میں۔

لیکن یہ روایت ضعیف بھی ہے اور دیگر صحیح روایات کی خلاف بھی ہے ضعف کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن قیس ہیں جس کو محدثین نے کذاب اور حدیثیں گھڑنے والا کہاہے دوسرا راوی عبدالمالک بن ولید ہے جو مجہول ہے، اس لیے یہ روایت دوسری صحیح روایات کے مقابلے میں قابل قبول نہیں۔

2 : گنبدخضری کا سایہ نہ ہونے کی بات خلاف واقعہ ہے جو مشاہدہ کرنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved