• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضرت عمر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا واقعہ

استفتاء

ایک واقعہ کچھ اسطرح سنا ہے کہ حضرت حسینؓ نے اپنے بچپن میں حضرت عمر فاروقؓ جب خلیفہ بنے تھے  ان سے کہا کہ آپ میرے نانا کے ممبر سے اتریں اور اپنے نانا کے ممبر پر بیٹھیں، حضرت عمر  ؓ ممبر سے اتر گئے اور کہا شہزادے میرے نانا کا تو کوئی ممبر نہیں تو حضرت حسینؓ نے کہا تو پھر آپ میرے نانا کے ممبر پر بیٹھ جائیں تو حضرت عمر ؓبیٹھ  گئے۔ اس واقعہ میں کتنی صداقت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ واقعہ ثابت ہے  تاہم اس کا جو ترجمہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے اس میں اور اصل واقعہ کے ترجمہ میں قدرے فرق ہےاس لیے اصل واقعہ بمع ترجمہ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:

(1)حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منبر پر چڑھاپھر میں نے ان سے کہا کہ میرے والد کے منبر سے نیچے اتریں اور اپنے والد کے منبر پر چڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے والد کا تو کوئی منبر نہیں ہےپھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا ، جب منبر سے اترے تو فرمایا کہ بیٹے ،یہ آپ کو کس نے سکھایا ہے ؟میں نے کہا کہ کسی نے نہیں پھر فرمایا کہ بیٹے،  ہمارے سروں پر بال اللہ نے ہی اگائے ہیں پھر آپ لوگوں نے (یعنی  ہمیں عزت اللہ نے ہی عطا کی ہے اور اس کے بعد آپ کے خاندان نے کہ نبوت آپ کے خاندان میں تھی اور نبی ﷺ ہی کی وجہ سے ہمیں عزت و شرف عطا ہوا ہے) یہ بات کہتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اے بیٹے، ہمارے پاس آنا جانا رکھا کرو!

(2) حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منبر پر چڑھاپھر ان سے کہا کہ میرے والد کے منبر سے نیچے اتریں اور اپنے والد کے منبر پر چڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے والد کا تو کوئی منبر نہیں ہےپھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے ساتھ بٹھالیا ، جب منبر سے اترے تو مجھے اپنے گھر لے گئے پھر فرمایا کہ اے بیٹے ،یہ آپ کو کس نے سکھایا ہے ؟میں نے کہا کہ کسی نے نہیں، پھر فرمایا  ہمارے پاس آجایا کرو، تو میں ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلوت میں  موجود تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما دروازے پر موجود تھے ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی تو میں واپس لوٹ گیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعد میں مجھ سے ملے تو فرمایا کہ اے بیٹے، آپ ہمارے پاس نہیں آئے، تو میں نے کہا کہ میں آیا تھا، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنہائی  میں موجود تھے پھر  میں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس چلے گئے ہیں تو میں بھی واپس چلا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آپ  عبد اللہ بن عمر کی بنسبت اجازت کے زیادہ حق دار ہیں،  ہمارے سروں پر بال اللہ نے ہی اگائے ہیں پھر آپ لوگوں نے (یعنی  ہمیں عزت اللہ نے ہی عطا کی ہے اور اس کے بعد آپ کے خاندان نے کہ نبوت آپ کے خاندان میں تھی اور نبی ﷺ ہی کی وجہ سے ہمیں عزت و شرف عطا ہوا ہے) یہ بات کہتے ہوئے  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  اپنے سر  پر ہاتھ رکھا۔

سير اعلام النبلاء (3/ 285) میں ہے:

حماد بن زيد: حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري، عن عبيد بن حنين ، عن الحسين، قال: صعدت المنبر إلى عمر، فقلت: انزل عن منبر أبي، واذهب إلى منبر أبيك.فقال: إن أبي لم يكن له منبر!فأقعدني معه، فلما نزل، قال: أي بني! من علمك هذا؟قلت: ما علمنيه أحد.قال: أي بني! وهل أنبت على رؤوسنا الشعر إلا الله ثم أنتم!ووضع يده على رأسه، وقال: أي بني! لو جعلت تأتينا وتغشانا. إسناده صحيح.

طبقات ابن سعد (6/ 408) ميں  ہے:

«قال: أخبرنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري، عن عبيد بن حنين، عن حسين بن علي، قال: صعدت إلى عمر بن الخطاب المنبر، فقلت له: ‌انزل ‌عن ‌منبر ‌أبي واصعد منبر أبيك، قال فقال لي: إن أبي لم يكن له منبر، فأقعدني معه، فلما نزل ذهب بي إلى منزله فقال: أي بني! من علمك هذا؟ قال قلت: ما علمنيه أحد قال: أي بني! لو جعلت تأتينا وتغشانا، قال: فجئت يوما وهو خال بمعاوية، وابن عمر بالباب لم يؤذن له، فرجعت فلقيني بعد فقال لي: يا بني لم أرك أتيتنا قال: قلت: قد جئت وأنت خال بمعاوية فرأيت ابن عمر رجع فرجعت، قال: أنت أحق بالإذن من عبد الله بن عمر، إنما أنبت في رءوسنا ما ترى الله ثم أنتم، قال: ووضع يده على رأسه»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved