- فتوی نمبر: 25-114
- تاریخ: 06 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز تراویح کا بیان
استفتاء
مؤطا امام مالک میں امام مالکؒ حدیث لائے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعات (تراویح)پڑھائیں جب کہ ہم نے سنا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بیس رکعات شروع کروائیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اصول حدیث کے قاعدے کے مطابق مذکورہ حدیث مضطرب ہے اور مضطرب حدیث ضعیف ہوتی ہےلہذا یہ دلیل نہیں بن سکتی۔اضطراب کی تفصیل یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ ہیں اورحضرت سائبؓ سے اس حدیث کو تین شاگرد نقل کرتے ہیں:
1:حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب 2:یزید بن خصیفہ 3: محمد بن یوسفحضرت سائب ؓکے دو شاگرد حارثؒ اور یزید بن خصیفہؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات پر لوگوں کو جمع کیا تھا۔ التمھید لابن عبدالبرؒ(5/414)میں ہے:وقد روى الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب، عن السائب بن يزيد، قال: كنا ننصرف من القيام على عهد عمر وقد دنا فروع الفجر، وكان القيام على عهد عمر بثلاث وعشرين ركعةیعنی حضرت حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب ؒحضرت سائب بن یزیدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تراویح تیئس رکعات تھیں(بیس رکعت تراویح اور تین وتر )
السنن الکبری للبیھقی(2/698)میں ہے:عن يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد قال: كانوا يقومون على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في شهر رمضان بعشرين ركعةیعنی حضرت یزید بن خصیفہؒ حضرت سائب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان میں لوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔جبکہ محمد بن یوسفؒ کی روایت مضطرب ہے، کیونکہ ان کے شاگردوں میں سے بعض ان سے گیارہ نقل کرتے ہیں،جیسا کہ مؤطا امام مالک (141)میں ہے:عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد، أنه قال: أمر عمر بن الخطاب أبي بن كعب وتميما الداري أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة
یعنی محمد بن یوسفؒ حضرت سائبؓ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت تمیم داری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں (یعنی آٹھ تراویح اور تین وتر)پڑھائیں۔
بعض تیرہ نقل کرتے ہیں جیسا کہ فتح الباری(4/782)میں ہے:ورواه محمد بن نصر المروزي من طريق محمد بن إسحاق عن محمد بن يوسف فقال ثلاث عشرةیعنی محمد بن نصر المروزی محمد بن اسحاق کے طریق سے محمد بن یوسف سے تیرہ رکعتیں نقل کرتے ہیں۔
اور بعض اکیس نقل کرتے ہیں جیسا کہ مصنف عبدالرزاق(4/260)میں ہے:7730 -عن محمد بن يوسف، عن السائب بن يزيد،أن عمر: جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب، وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعة
یعنی کہ محمد بن یوسف ؒ حضرت سائبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے رمضان میں لوگوں کو حضرت ابی بن کعب ؓاورحضرت تمیم داریؓ کے پیچھے اکیس رکعات پر جمع کیا۔
لہٰذا حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث وہی ہے جو حارثؒ اور یزید بن خصیفہؒ نے نقل کی ہے نیز حضرت سائبؓ کے علاوہ دیگر حضرات بھی یہی نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں جیسا کہ
مصنف ابن ابی شیبہ (2/163)میں ہے:عن يحيى بن سعيد أن عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة یعنی یحییٰ بن سعدؒ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک صاحب کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو (تراویح کی)بیس رکعتیں پڑھائیں
اسی طرح مؤطا امام مالک (142)میں ہے:عن يزيد بن رومان أنه قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة
یعنی یزید بن رومانؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں رمضان میں لوگ(بیس رکعت تراویح اور تین وتر ملا کر)تیئس رکعتیں پڑھتے تھے۔
اورمصنف ابن ابی شیبہ(2/163) میں ہے:عن عطاء، قال: أدركت الناس وهم يصلون ثلاثا وعشرين ركعة بالوتر
یعنی حضرت عطاء (تابعیؒ)فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو وتر سمیت تیئس رکعتیں پڑھتے پایا ہے۔
اور اگر محمد بن یوسفؒ کی مضطرب روایت کو کسی درجے میں قابلِ لحاظ سمجھا جائے تو دونوں کے درمیان تطبیق کی ایک صورت وہ ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے کہ گیارہ پر چند روز عمل رہا، پھر بیس پر عمل کا استقرار ہوا، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ سنن کبری میں دونوں روایتوں کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:ویمکن الجمع بین الروایتین، فانھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم کانوا یقومون بعشرین ویوترون بثلٰث(2/699)
ترجمہ:…”دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے، کیونکہ وہ لوگ پہلے گیارہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھنے لگے۔
اور تطبیق کی دوسری صورت یہ ہے کہ بیس رکعات دو امام پڑھاتے تھے(1)ابی بن کعبؓ (2) تمیم داریؓ، ان میں سے ایک دس تراویح پڑھاتے تھےاور دوسرے بقیہ دس پڑھاتے تھے،باقی رہا وتر کا مسئلہ یہ ایک الگ بحث ہے لہذا جو حضرات ایک وتر کے قائل ہیں ان کے مطابق بعد والا امام دس کے ساتھ ایک رکعت وتر کی ملا کر کل گیارہ پڑھاتا تھا اور جو تین کے قائل ہیں ان کے مطابق بعد والا امام تیرہ رکعات پڑھاتا تھا۔چنانچہ اوجز المسالک (2/388)میں ہے:قلت:ويمكن توجيه آخر غير ماتقدم،وهو أن يقال:إن رواية إحدى وعشرين باعتبار مجموع ما صلياه،وإحدى عشرة باعتبار كل واحد منهما،فكان يصلي كل واحد منهما عشرا عشرا،والواحد الوتر يصلي مرة هذا ومرة هذا فيصح النسبة إليهما معا،وعلى هذا لا يحتاج إلى وهم أحد،ولا يخالف سائر الروايات الواردة في الباب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved