- فتوی نمبر: 30-192
- تاریخ: 20 نومبر 2023
استفتاء
کیا "ہرشی” کمپنی کی ملک چاکلیٹ استعمال کرنا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
’’ ہر شی ‘‘(HERSHEY)کمپنی کی’’ ملک چاکلیٹ‘‘کے پیکٹ پر جو اجزائے ترکیبی درج ہیں ان میں سے کسی جزکے حرام ہونے پر کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں، لہذا جب تک مذکورہ چاکلیٹ میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کی کوئی قابل اعتبار دلیل سامنے نہیں آتی اس وقت تک اس چاکلیٹ کے کھانے کی گنجائش ہے۔
توجیہ:"ہرشی” کمپنی کی’’ ملک چاکلیٹ ‘‘ کے پیکٹ پر 8 اجزائےترکیبی مذکور ہیں جن میں سے5نباتاتی،2حیوانی اور1 مصنوعی ہے۔ان اجزاء کی تفصیل اور ان كا حکم درج ذیل ہے:
نباتاتی اجزاء:
1۔چینی،2۔چاکلیٹ،3۔ناریل ،4۔ سویا لیسیتھن ،5۔,PGPR E476(Polyglycerol Polyricinoleate) (پولی گلیسرول) ایسا جز ہے جو حیوانات سے بھی حاصل ہوتا ہے اور اور نباتات سے بھی۔کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر یہ بات لکھی ہے کہ کمپنی یہ جز نباتات سے حاصل کرتی ہے ۔ ویب سائٹ کی عبارت درج ذیل:
PGPR is made from natural ingredients such as castor beans, soybean oil and sunflower oil.
ترجمہ: یہ قدرتی اجزاء جیسے کیسٹر پھلیاں، سویا بین کا تیل اور سورج مکھی کے تیل سے بنایا گیا ہے۔
نباتاتی اجزاء کا حکم:
یہ ہے کہ ان میں سے نشہ آور یا مضر اجزاء کے علاوہ سب پاک اور حلال ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق مذکورہ اجزاء میں سے کوئی بھی جز نشہ آور اور مضر نہیں ہے لہذایہ سب اجزاء حلال اور پاک ہیں۔
حیوانی اجزاء:
6۔دودھ۔7۔دودھ سے حاصل کردہ چکنائی
ان کا حکم یہ ہے کہ جس جانور کا گوشت حلال ہے اس کا دودھ بھی حلال ہے ،اورجس جانور کا گوشت حلال نہیں اس کا دودھ بھی حلال نہیں، مذکورہ دودھ کے بارے میں اگر چہ یہ معلوم نہیں کہ یہ حلال جانور کا ہے یا حرام جانور کا ، اور چونکہ جانوروں یا ان کے اجزاء میں اصل حرمت ہے اس لئے اصولی طور پر تو جب تک اس کے حلال ہونے کا علم نہ ہو اس وقت تک اسے حلال نہیں کہا جا سکتا لیکن چونکہ بازار میں عام طور پر حلال جانوروں(گائے،بھینس ،بکری وغیر ہ) کا دودھ ہی دستیاب ہوتا ہے حرام جانوروں کا دودھ عموماً دستیاب نہیں ہوتا اس لیے جب تک اس دودھ کے کسی حرام جانور سے حا صل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اس جزکو بھی حلال کہا جائے گا ۔
مصنوعی اجزاء:
8۔قدرتی فلیور
مصنوعی اجزاء بھی در حقیقت مذکورہ بالا تین اجزاء(نباتاتی،معدنی اور حیوانی) میں سےکسی ایک سے یا ایک سے زائد سے ہی تیارہوتے ہیں ان سے ہٹ کرکسی اور چیز سے تیار نہیں ہوتے ، اس لیے مصنوعی اجزاءکا اصل حکم تو اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب یہ معلوم ہو کہ ان کو کن اشیاء سے تیار کیا گیا ہے اور پھر اس چاکلیٹ میں ان میں سے کون سا مصنوعی فلیور استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ ان اجزاء کےکسی حیوان یا دیگر حرام اشیاء سے تیار ہونے کا علم یا غالب گمان نہیں اس لیے جب تک ان مصنوعی اجزاء کے کسی حرام جانور یا کسی حرام شے سے حاصل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک ان مصنوعی اجزاء کو بھی حلال کہا جائے گا۔
لہذا جب تک ’’ ہر شی ‘‘ چاکلیٹ میں کسی حرام جز کے شامل ہونے کا علم یا غالب گمان نہ ہو اس وقت تک اسے حلال کہا جائے گا۔ واضح رہے کہ مصنوعی جز کے ماخذ حیوان ہونے کا احتمال شبہۃ الشبہہ کا درجہ رکھتا ہے ا س لیے اس کا اعتبار نہ ہوگا۔
نوٹ:ہمارے اس فتوے کا تعلق صرف صارف (Consumer)کے ساتھ ہے کیونکہ ایک مفتی اور عام صارف کو کسی مصنوع(Product)کے صرف ان اجزائے ترکیبی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے جو پیکٹ پر درج ہوں اور وہ ان اجزاء کو ہی سامنے رکھ کر اپنے لیئے یا دوسرے کیلئےحلال یا حرام کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
جبکہ صانع(Manufacturer)کو اصل حقیقت کا علم ہوتا ہے اس لیئے صانع(Manufacturer) نے اگر اپنی کسی مصنوع(Product)میں کوئی حرام جز شامل کیا ہو اور اسے کسی بھی مصلحت سے اجزائے ترکیبی میں ذکر نہ کیا ہو تو صانع (Manufacturer) کا یہ فعل بہر حال حرام ہوگا اور چونکہ ہمارے پاس ایسے وسائل نہیں کہ ہم اس کی تحقیق کر سکیں کہ کسی مصنوع میں واقعتاً کوئی حرام جز شامل تو نہیں ،اس لیئے ہمارے اس فتوے کی صانع (Manufacturer) کے لیئے سرٹیفکیٹ کی حیثیت نہیں ہے۔
نیز ہمارا یہ فتوی موجودہ پیکٹ پر درج اجزائے ترکیبی کے بارے میں ہے لہذا اگر کمپنی آئندہ اجزائے ترکیبی میں کوئی تبدیلی کر ےتو ہمارا یہ فتوی اس کو شامل نہ ہوگا۔
إحياء علوم الدين(2/ 92)میں ہے:
….. وأما النبات فلا يحرم منه إلا ما يزيل العقل أو يزيل الحياة أو الصحة»
رد المحتار (10/45)میں ہے:
«وفي الخانية وغيرها: لبن المأكول حلال»
صحیح بخاری (رقم:5507) میں ہے:
عن عائشة رضي الله عنها: «أن قوما قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكر اسم الله عليه أم لا، فقال: سموا عليه أنتم وكلوه» قالت: وكانوا حديثي عهد بالكفر
شرح القسطلانی (4/ 11) میں ہے:
عن عائشة -رضي الله عنها-: "أن قوما قالوا: يا رسول الله إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا؟ فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: سموا الله عليه وكلوه ……….. قال في فتح الباري: وغرض المصنف هنا بيان ورع الموسوسين كمن يمتنع من أكل الصيد خشية أن يكون الصيد كان لإنسان ثم انفلت منه وكمن يترك شراء ما يحتاج إليه من مجهول لا يدري أماله حرام أم حلال، وليست هناك علامة تدل على الحرمة، وكمن يترك تناول الشيء لخبر ورد فيه متفق على ضعفه وعدم الاحتجاج به ويكون دليل الإباحة قويا وتأويله ممتنع أو مستبعد
بہشتی زیور (ص:604) میں ہے:
’’نباتات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا مسکر ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:600) میں ہے:
’’جمادات سب پاک اور حلال ہیں الا آنکہ مضر یا نشہ لانے والا ہو۔‘‘
بہشتی زیور (ص:606) میں ہے:
’’جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے ان کا دودھ بھی حرام اور نجس ہے اور حلال جانور کا دودھ حلال اور پاک ہے۔‘‘
امداد الفتاوی(96/4)میں ہے:
’’سوال (۲۳۷۴) : جب سے پتہ لگا ہے کہ بعض ولایتی رنگوں میں اسپرٹ کا شبہ ہے اسی وقت سے جب بھی کپڑا پہنتا ہوں تو طبیعت میں شک رہتا ہے کہ یہ کہیں ناپاک نہ ہو، حضرت اقدس ارشاد فرماویں کہ ولایتی رنگ دار کپڑوں مثلاً رنگین گرم کپڑے، رنگین دھاری دار سرد کپڑے، عورتوں کے لئے پختہ رنگ کی رنگین چھینٹیں وغیرہ بلا دھوئے پہننے اور پہن کر نماز پڑھنے میں حرج تو نہیں ہے؟
(۲) حضرت والا یہ بھی ارشاد فرماویں کہ عورتوں کے لئے ولایتی رنگوں سے دوپٹہ وغیرہ رنگ کر پہننے کا کیا حکم ہے؟
الجواب: اول تو خود ان رنگوں میں جزونجس شامل ہونے میں شبہ پھر ان کپڑوں میں ان رنگوں کے شامل ہونے میں شبہ تو کپڑوں کے نجس ہونے کا شبہۃ الشبہہ ہوگیا؛ اس لئے فتوے سے گنجائش ہے باقی اگر کوئی ورع اختیار کرلے اولیٰ واحسن ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved