- فتوی نمبر: 1-222
- تاریخ: 04 جولائی 2007
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
درس نظامی میں علم فقہ کی آخری اور انتہائی معتبر کتاب"ھدایہ” میں جن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے ان کی تخریج علامہ عسقلانیؒ نے "الدرایہ” کے نام سے کی جو کہ آجکل متداول مطبوعہ نسخوں پر شائع ہوتی ہے اس تخریج میں جا بجا اکثر احادیث کی تخریج میں اور بین السطور میں بھی اکثر احادیث کے بارے میں"ضعیف۔لم اجدہ هکذا۔ باسناد ضعیف۔لم اجدہ۔ وموضوع” وغیرہ کا لکھا ہوتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ اتنی اہم کتاب اور استدلال ایسی احادیث سے؟ اہل حدیث اس کو بہت اچھالتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو حنفیوں کی اتنی معتبر کتاب اور احادیث ضعیفہ سے استدلال کیا ہوا ہے۔ اور یہ بھی بات پھیلاتے ہیں کہ ان احادیث کی تخریج کرنے والے احناف کے انتہائی اہم اور ثقہ علامہ عسقلانی ہیں اگر یہ معتبر شخصیت نہ ہوتی تو پھر ان کی تخریج ھدایہ پر مطبوع نہ ہوتی۔
علاوہ ازیں ہمارے ساتھ شوافع بھی پڑھتے ہیں انکا یہ اعتراض ہوتا ہے کہ احناف کے تقابل میں جو شوافع کا مسلک بیان ہوتا ہے اکثر یا تو مرجوح قول ہوتا ہے یا متعدد روایتوں میں سے کوئی روایت جو کہ معمول بہا بھی نہیں ہوتی یا ضعیف قول ہوتا ہے۔براہ کرم ھدایہ کے بارے میں مندرجہ بالا اشکالات کا بھی کافی وشافی حل پیش کر کے ممنون ومشکور فرمائیں۔فقط والسلام
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۳۔ الدرایہ کے نام سے احادیث اسکی تخریج کرنے والے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ہیں جو کہ شافعی المسلک ہیں، باقی رہا ان کی تخریج کا ھدایہ پر مطبوع ہونا تو یہ کسی صاحب مطبع کا فعل ہے۔
نیز اکثر احادیث کے بارے میں"ضعیف لم اجدہ هکذا "،”باسناد ضعیف لم اجدہ” وغیرہ کہنا بھی کوئی قابل اعتراض بات نہیں اسلئے کہ فقہاء عام طور سے الفاظ حدیث کا زیادہ خیال نہیں فرماتے،یہ حضرات حدیث کو روایت بالمعنی کے طور پر ذکر کر دیتے ہیں،اس لیے کسی بھی صاحبِ علم کا لم اجدہ هکذا کہنا حدیث مستدل بہ کے بالمعنی موجود نہ ہونے کی دلیل نہیں،اور کسی صاحب کا کسی حدیث کے بارے میں لم اجدہ کہنا حدیث کے عدم وجود کی دلیل نہیں۔
جس حدیث کے بارے میں حافظ صاحب یا کسی اور صاحب نے ” لم اجدہ "کہا ہے اسکو اعلاء السنن للعثمانی ؒ ، نصب الرایة للزیلعیؒ اور علامہ عینیؒ کی البنایہ میں دیکھیں اگر ان کتابوں میں بھی وہ حدیث نہ ملے تو پھر کچھ سوچا جا سکتا ہے۔
نیز کسی حدیث کے بارے میں ضعیف کہنا یا باسناد ضعیف کہنا بھی قابل اعتراض نہیں کیونکہ کسی حدیث کا ضعیف ہونا اسکے حسن لغیرہ نہ ہونے کو مستلزم نہیں،ممکن ہے جس حدیث کو حافظ صاحب یا کوئی اور صاحب ضعیف یا ضعیف الاسناد کہ رہے ہیں وہ تعدد طرق کی وجہ سے حسن لغیرہ ہو جو کہ قابل استدلال ہے۔بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکو تلقی بالقبول حاصل ہو۔نیز حنفیہ کے دو طبقے ہیں ایک عراقیین اور دوسرے علمائے ما وراء النہر۔عراقیوں میں حدیث کے ساتھ تمسک رہا ہے ،جبکہ دوسروں میں حدیث کے ساتھ شغف کم رہا ہے،صاحب ھدایہ بھی ماوراء النہر سے ہیں۔اس لیے حدیث میں محدثانہ اھتمام نہیں فقہی اھتمام زیادہ ہے۔
اگر کسی جگہ احناف کے تقابل میں شوافع کے مرجوح قول یا غیر معمول بہا روایت یا قول ضعیف کو ذکر کیا جاتا ہے تو شوافع کا یہ اعتراض درست ہے،اور احناف کو چاہیے کہ وہ اختلاف المذاھب بیان کرنے کے موقع پر مد مقابل کے معمول بہ اور راجح مسلک کو ذکر کریں۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved