• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدت وفات کی ابتداء موت کے وقت سے ہوگی نہ کہ علم کے وقت سے

استفتاء

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک عورت کا شوہر کچھ وقت سے غائب تھا، نہ معلوم اغواء کیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ تھی، اور وہیں پر مر جاتا ہے ، جبکہ اس کے گھر والوں کو اس کی موت کے دو ماہ بعد اطلاع ملتی ہے تو آیا اس شخص کی بیوی از سر نو عدت گذارے گی یا باقی وقت عدت میں شمار ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

موت کی عدت کی ابتداء موت کے وقت سے ہوتی ہے نہ کہ موت کی اطلاع کے وقت سے۔ لہذا مذکورہ صورت میں اطلاع سے پہلے وفات کو جو دو مہینے گذر چکے ہیں وہ عدت میں شمار ہوں گے۔

رد المحتار علی الدر المختار (5/ 204) میں ہے:

و مبدأ العدة بعد الطلاق و بعد الموت على الفور و تنقضي العدة إن جهلت المرأة بهما أي بالطلاق و الموت لأنها أجل فلا يشترط العلم بمضيه سواء اعترف بالطلاق أو أنكر. قال الشامي تحت قوله (لأنها أجل) أي لأن العدة أجل فلا يشترط العلم بمضيه أي بمضي الأجل . و في عامة النسخ لأنهما بضمير التثنية أي عدة الطلاق و عدة الموت.

فقہ اسلامی از حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب (181) میں ہے:

’’کسی کا شوہر مر گیا مگر اس کو خبر نہیں ملی چار مہینے دس دن گذر چکنے کے بعد خبر آئی تو اس کی عدت پوری ہو چکی۔ جب سے خبر ملی ہے تب سے عدت بیٹھنا ضروری نہیں۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved