• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اجارے کے معاہدہ کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے ہونے والے اخراجات کا مطالبہ کرنا

  • فتوی نمبر: 9-192
  • تاریخ: 06 جون 2024

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں سعودیہ میں رہائش پذیر ہوں، مجھے گھریلو ضروریات کے لیے ایک ڈرائیور کی ضرورت تھی، میں نے پاکستان میں ایک شخص سے اس سلسلے میں بات کی اور اسے کہا کہ آپ کی ماہانہ تنخواہ 16 سو ریال ہو گی اور مجھے چار سال تک کے لیے ڈرائیور کی ضرورت ہے، اگر آپ تیار ہیں تو میں آپ کے لیے ویزا، اقامہ، میڈیکل، آنے جانے کی ٹکٹیں اور لائسنس وغیرہ کا انتظام کرتا ہوں۔ یہ شخص ڈرائیونگ کے لیے رضا مند ہو گیا اور میں نے اس کے لیے تمام انتظامات کیے، جس میں تقریباً 17 ہزار ریال میرا خرچہ ہوا۔ یہ شخص سعودیہ میں میرے پاس تقریباً 7 ماہ رہا۔ اس کے بعد یہ شخص دو ماہ کی چھٹی پر پاکستان آیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے مجھے خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بہر حال کچھ کہہ سن کر اور کچھ ڈرا دھمکا کر ہم نے اسے واپس سعودیہ جانے کے لیے تیار کیا، اور وہ ہمارے پاس سعودیہ آگیا، لیکن وہ ابھی بھی ہمارے پاس ڈرائیونگ کرنے کے لیے تیار نہیں، جس کی وجہ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ میرا یہاں دل نہیں لگ رہا۔

اس تمام تفصیل کے پس منظر میں ہم نے اس کے سامنے دو مطالبے رکھے:

1۔ ایک یہ کہ جب تک ہمارے دوسرے ڈرائیور کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک وہ ڈرائیونگ کرے، اور ہم اس کی طے شدہ تنخواہ یعنی 16 سو ریال ماہانہ اس کو دیں گے، جس میں تقریباً 6 ماہ سے لے کر سال تک عرصہ لگ سکتا ہے۔

2۔ دوسرا یہ کہ جو خرچہ ہمارا اسے سعودیہ لانے میں ہوا ہے یعنی 17 ہزار ریال وہ خرچہ وہ ہمیں یکمشت واپس کرے یا اپنی تنخواہ میں سے کٹواتا رہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے یہ دو مطالبے شریعت کی رُو سے درست ہیں یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ اجارے کا معاہدہ چار سال تک کے لیے ہوا ہے اور اسی لیے مستاجر نے اجیر کو سعودیہ لانے کے لیے متعدد انواع کے خرچے کیے ہیں۔ اور اب اجیر کے اس معاہدے کو پورا نہ کرنے کا معتبر اور معقول عذر بھی نہیں ہے، اور اس معاہدے کو پورا نہ کرنے سے مستاجر کو ایک اچھا خاصا نقصان بھی اٹھانا پڑے گا۔ لہذا مذکورہ صورت میں مستاجر کے لیے سوال میں ذکر کردہ دونوں مطالبے شرعاً جائز ہیں۔

چنانچہ مجمع الفقہ الاسلامی کی قرادادوں میں ہے:

الوعد يكون  ملزماً للواعد ديانةً إلا لعذر وهو ملزم قضاءً إذا كان معلقاً على سبب ودخل الموعود في كلفة نتيجة الوعد ويتحدد أثر الإلزام في هذه الحالة إما بتنفيذ الوعد وإما بالتعويض عن الضرر الواقع فعلاً بسبب عدم الوفاء بالوعد بلا عذر.  (بحواله: فقه البيوع: 1/ 92).

………………………………………… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved