- فتوی نمبر: 28-250
- تاریخ: 11 فروری 2023
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
اگر انفرادی طور پر میت کے لیے ایصال ثواب کرسکتے ہیں تو اجتماعی طور پر کرنے میں کیا حرج ہے؟ اگر واسطے اللہ کے محفل منعقد کرلیں جیسے نعت خوانی ذکر واذکار کرکے جو ثواب ملتا ہے اس کا ثواب جتنے بھی دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہوں اور قیامت تک آنے والے ہوں تمام مسلمان مومن کے لیے کردیں تو کیا حرج ہے؟ اگر اجتماعی ایصال ثواب اس وجہ سے منع کیا جاتا ہے کہ قرآن واحادیث میں اجتماعی کرنے کا حوالہ نہیں ملتا تو پھر نہ کرنے کا بھی حوالہ نہیں ملتا یہ سوال ذہن میں آتا ہے جس کام کو نبیﷺ نے منع نہ کیا ہو تو پھر کوئی بھی علماء، مفتی منع کرنے کا حکم اپنی طرف سے کیسے صادر کرسکتا ہے؟ اختلافی نوعیت کا سوال ہے لیکن جواب ایسا ہو جو تسلی بخش ہو اور دلیل سے ہو کیونکہ قائل ہمیشہ دلیل سے کیا جاتا ہے اور سوال پوچھنے کا مقصد یہ بھی ہے کسی ایک پوائنٹ پر عوام کا اتحاد ہوجائے، ایک پوائنٹ پر ہر جماعت کا اتحاد ممکن بھی نہیں ہے اگر کوئی سنت کے خلاف ہو یا منع کیا ہو جس کام سے اس کام کو اس عمل کو فضول بھی کہہ سکتے ہیں وقت کا ضیاع بھی کہہ سکتے ہیں لیکن جس کام کو نہ ہی منع کرنے کا حکم ہو نہ ہی کرنے کاحکم ہو اس کام کو ہم کیا کہیں گے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حدیث میں اجتماعی قرآن خوانی کو منع کیا گیا ہے۔
الاعتصام للشاطبی(245،ط: معروفیہ) میں ہے:
وعن يونس بن عبيد: أن رجلا قال للحسن: يا أبا سعيد! ما ترى في مجلسنا هذا؟ قوم من أهل السنة والجماعة لا يطعنون على أحد، نجتمع في بيت هذا يوما، وفي بيت هذا يوما، فنقرأ كتاب الله، وندعو لأنفسنا ولعامة المسلمين؟ قال: فنهى الحسن عن ذلك أشد النهي.
ترجمہ:ایک شخص نے حضرت حسن ؒسے پوچھا کہ اے ابو سعید تم ہماری اس مجلس کو کیسا سمجھتے ہو کہ ہم اہل سنت والجماعت کے چند آدمی جو کسی پر طعن نہیں کرتے ایک گھر میں جمع ہوجاتے ہیں آج ایک شخص کے گھر میں کل دوسرے کے گھر میں اور جمع ہوکر قرآن خوانی کرتے ہیں اور اپنے لیے اور عام مسلمین کے لیے دعا کرتے ہیں راوی کہتے ہیں کہ حضرت حسنؒ نے اس کو نہایت شدت سے منع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved