• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اختلاف کی صورت میں عام آدمی کے لیے حکم

  • فتوی نمبر: 5-219
  • تاریخ: 15 نومبر 2012

استفتاء

بحمدہ گذشتہ کچھ عرصے سے ہمارے خاندان کے اکثر افراد کا رجحان دین پر چلنے کی طرف ہے۔ تبلیغ اور اسی طرح مشائخ تصوف کے تعلق کی برکت سے دین داری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی بچے مدارس میں زیر تعلیم ہیں اور بعض فارغ التحصیل ہونے کے قریب ہیں۔ خدا کے فضل سے خاندان میں باہم اتفاق و اتحاد کا ماحول ہے اس لیے پیش آمدہ امور پر خاندان کے بڑے حضرات باہمی اور اجتماعی مشاورت سے معاملات کو شریعت کے تابع رکھ کر ہی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں عرض ہے کہ جبکہ کوئی اہم یا مشکل مسئلہ در پیش ہو تو اس سے متعلق سوال متعدد دار الافتاؤں میں بھیج کر جواب منگوایا جاتا ہے اور پھر ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس موقع پر کیا کرنا ہے؟

1۔ کبھی صاحب مسئلہ کی پریشانی اور وقت کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر جبکہ وہ شخص نیا نیا دین کی طرف آیا ہو تو اس جواب کو لیا جاتا ہے جہاں سے گنجائش مل رہی ہو۔

2۔ کبھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر مفتی حضرات کی رائے جس طرف ہو اس پر عمل کیا جائے۔

3۔ کبھی جو جواب تقویٰ اور احتیاط کے زیادہ قریب ہو اس کو لیتے ہیں۔

4۔ کبھی جو جواب زیادہ صحیح، مدلل اور سمجھ میں آنے والا ہو تو اس پر عمل کرتے ہیں۔

ایک مفتی صاحب نے ہمارے اس طریقہ کار کو سخت ناپسند کیا ہے۔ جبکہ ہمارا خیال ہے کہ ہم صرف ایک مسلک اہلسنت  و الجماعت حنفی دیوبندی علماء اور مفتی حضرات سے رائے لے رہے ہیں، مختلف مسالک کی رائے تو نہیں لے رہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی پختہ صاحب علم کے لیے تو اس کی گنجائش ہے کہ اسے اگر کسی مسئلے میں تردد یا اشکال ہو تو وہ مختلف علماء سے اس سلسلے میں رائے حاصل کرے اور پھر دلائل کی بنیاد پر کسی رائے کو اختیار کرے کیونکہ اس کا یہ کام دلیل یا کسی اصل شرعی ( رخصت، سہولت، عرف وغیرہ) پر مبنی ہوگا۔

لیکن کسی عامی یا عام عالم کے لیے جو دلائل میں غور فکر کرنے اور محاکمہ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اس کے لیے مختلف حضرات سے خواہ ایک ہی فقہی مسلک سے وابستہ ہوں کسی مسئلے میں رائے معلوم کرنا اور پھر ان میں سے کسی ایک کو کسی بھی بنیاد پر لینا اصولی طور پر درست نہیں۔ کیونکہ یہاں دو  رائیوں میں سے کسی ایک کی ترجیح دلیل پر مبنی نہیں، کیونکہ ترجیح بالدلیل کے لیے اہلیت درکار ہے جو پختہ عالم میں ہوسکتی ہے عامی میں اور عام عالم میں نہیں۔

عامی کے لیے طریقہ یہ ہے کہ اسے جس مفتی کا معتبر اور محقق ہونا صحیح ذریعہ سے معلوم ہو اور اس پر اعتماد بھی ہو وہ انہی سے مسئلہ پوچھے اور اس پر عمل کرے۔ صواب اور خطا کا معاملہ مفتی کی ذمہ داری ہے۔ سائل بریء الذمہ ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved