• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

امام ابوحنیفہؒ کا عشاء کے وضو سے 40 سال فجر کی نماز پڑھنے کے متعلق اشکال کا جواب

استفتاء

کیا امام ابو حنیفہؒ  نےواقعی چالیس سال تک عشاء  کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ؟

وضاحت مطلوب ہے: سائل کو اس میں کیا اشکال ہے؟

جواب وضاحت: حضرت اس واقعہ میں اشکالات پیش خدمت ہیں ۔ ١. چالیس سال تک عشا کے  وضو سے فجر کی نماز ادا کرنا  کیسے  ممکن ہے؟ ٢. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ وہ عشا کے بعد سوتے تھے اور پھر فجر کے لیے اٹھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سب سے اچھا ہے تو پھر نبی ﷺکے  طریقہ کار کو امام ابو حنیفہؒ نے کیوں چھوڑا؟ ٣.چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا دین میں غلو نہیں؟  کیونکہ ایک مرتبہ ٣ صحابی  آئے، ایک صحابی ؓ نے عرض کیا کہ وہ زندگی بھر شادی نہیں کریں گے، دوسرے صحابیؓ نے عرض کیا وہ پوری زندگی روزہ رکھیں گے اور تیسرے صحابیؓ  نے عرض کیا کہ وہ ساری رات عبادت کیا کریں گے۔‌اس پر نبیﷺ  ناراض ہوئے اور کہا کہ میں سوتا بھی ہوں،  کھاتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔  اس حدیث کی روشنی میْں ساری رات عبادت کرنا اور وہ بھی چالیس سال تک دین میں غلو نہیں ؟ تھوڑی روشنی ڈالیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ 40 سال عشاء کے وضو سے فجر پڑھنا اگرچہ مشکل ہے لیکن اس میں ناممکن ہونے کی کوئی بات نہیں۔

2۔یہ بات درست نہیں کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام عشاء کے بعد سوتے تھے اور پھر فجر کے لیے اٹھتے تھے بلکہ ایک تہائی رات تک تو ویسے ہی عشاء کے لیے جاگتے تھے اور پھر فجر سے پہلے تہجد کے لیے اٹھنے کا معمول بھی تھا اور سورۂ مزمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا تقریبا پوری رات قیام کرنے کا ذکر ہے۔اور کبھی کبھار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا لمبا قیام کرتے تھے کہ پاؤں مبارک پر ورم آجاتا تھا لہذا یہ کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ عشاء کے بعد سوتے تھے اور پھر فجر کے لیے اٹھتے تھے ہاں ہم جیسے آرام پسندوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سونا نظر آتا ہے جاگنا اور راتوں کو رونا نظر نہیں آتا۔

3۔ 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے کو دین میں غلو کہنا غلو کی حقیقت سے نا واقفیت کی دلیل ہے کیونکہ غلو شریعت کی مقرر کر دہ  حدود سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں اور چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنے میں شریعت کی حدود سے کوئی تجاوز نہیں کیونکہ شریعت میں عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا نہ ممنوع ہے اور نہ لازمی اور ضروری ہے۔غلو تب ہوتا جب اسے  ممنوع سمجھا جاتا یا لازمی سمجھا جاتا۔ باقی رہی تین صحابہ رضی اللّہ عنہم والی بات تو وہ غلو میں داخل تھی کیونکہ انہوں نے ان اعمال کو اپنی نجات کیلئے ضروری سمجھ لیا تھا اور اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يا أيها المزمل ‌قم ‌الليل إلا قليلا  نصفه أو انقص منه قليلا  [سورة المزمل، آيت نمبر1تا3]

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إن ‌ربك ‌يعلم أنك تقوم أدنى من ثلثي الليل ونصفه وثلثه   [سورة المزمل، آيت نمبر19]

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم   [سورة النساء، آيت نمبر:171]

تفسیر ماتریدی (3/424) میں ہے:

وقوله عز وجل : (يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم) والغلو في الدين: ‌هو ‌المجاوزة ‌عن ‌الحد الذي حد لهم، وكذلك الاعتداء: ‌هو ‌المجاوزة ‌عن ‌الحد الذي أحد لهم، في الفعل وفي النطق جميعا.وقال بعضهم: تفسير الغلو ما ذكر: (ولا تقولوا على الله إلا الحق)؛ فالقول على الله بما لا يليق به غلو.وقيل: لا تغلوا: أي لا تعمقوا في دينكم، ولا تشددوا

تفسیر رازی (12/411) میں ہے:

والغلو نقيض التقصير. ‌ومعناه ‌الخروج ‌عن ‌الحد، وذلك لأن الحق بين طرفي الإفراط والتفريط، ودين الله بين الغلو والتقصير

صحیح بخاری (رقم الحدیث:4836) میں ہے:

حدثنا ‌صدقة بن الفضل، أخبرنا ‌ابن عيينة ، حدثنا ‌زياد: أنه سمع ‌المغيرة يقول: «قام النبي صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قدماه، فقيل له: غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر، قال: ‌أفلا ‌أكون ‌عبدا شكورا

صحیح بخاری (رقم الحدیث:5063) میں ہے:

حدثنا ‌سعيد بن أبي مريم: أخبرنا ‌محمد بن جعفر: أخبرنا ‌حميد بن أبي حميد الطويل: أنه سمع ‌أنس بن مالك رضي الله عنه يقول: «جاء ‌ثلاثة ‌رهط إلى بيوت أزواج النبي صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبي صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر؟! قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا، أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي فليس مني.»

صحیح مسلم (رقم الحدیث:1464) میں ہے:

عن سيار بن سلامة أبي المنهال، قال: سمعت أبا برزة الأسلمي، يقول: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤخر العشاء إلى ثلث الليل، ويكره النوم قبلها، والحديث بعدها، وكان يقرأ في صلاة الفجر من المائة إلى الستين، ‌وكان ‌ينصرف ‌حين يعرف بعضنا وجه بعض

صحیح مسلم (رقم الحدیث:1446) میں ہے:

عن عائشة، قالت: أعتم النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة حتى ذهب ‌عامة ‌الليل، وحتى نام أهل المسجد، ثم خرج فصلى، فقال: «إنه لوقتها لولا أن أشق على أمتي» وفي حديث عبد الرزاق: «لولا أن يشق على أمتي»

الاعتصام للشاطبی (ص:30) میں ہے:

{ياأيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين} [المائدة: 87] فنهى أولا عن تحريم الحلال، ثم جاءت الآية تشعر بأن ذلك اعتداء، لا يحبه الله.

وسيأتي للآية تقرير إن شاء الله.لأن بعض الصحابة هم أن يحرم على نفسه النوم بالليل، وآخر الأكل بالنهار، وآخر إتيان النساء، وبعضهم هم بالاختصاء، مبالغة في ترك شأن النساء، وفي أمثال ذلك قال النبي صلى الله عليه وسلم: «من رغب عن سنتي فليس مني»

شمائل ترمذی (رقم الحدیث:262) میں ہے:

عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أنه صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم من الليل قال: فلما دخل في الصلاة قال الله أكبر ذو الملكوت والجبروت والكبرياء والعظمة. قال: ثم قرأ البقرة ثم ركع ‌فكان ‌ركوعه نحوا من قيامه وكان يقول سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم ثم رفع رأسه فكان قيامه نحوا من ركوعه، وكان يقول لربي الحمد لربي الحمد ثم سجد فكان سجوده نحوا من قيامه وكان يقول سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى ثم رفع رأسه فكان ما بين السجدتين نحوا من السجود وكان يقول رب اغفر لي رب اغفر لي حتى قرأ البقرة وآل عمران والنساء والمائدة أو الأنعام. / شعبة الذي شك في المائدة والأنعام

معارف القرآن (2/619) میں ہے:

(قوله تعالى لا تغلوا في دينكم) اس آیت میں اہل کتاب کو غلو فی الدین سے منع فرمایا گیا ۔غلو کے لفظی معنی حد سے نکل جانے کے ہیں اور امام جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں فرمایا:الغلو في الدين هو مجاوزة حد الحق فيه یعنی دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved