- فتوی نمبر: 16-339
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
سنن ابو داؤد: رقم الحدیث: 824
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نماز فجر میں ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ نے قرآت شروع کی تو وہ آپ پر دشوار ہو گئی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟ ، ہم نے کہا: ہاں، الله کے رسول! ہم جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھا کرو، کیونکہ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘
سوال: فرض نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ صحیح احادیث میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے:
چنانچہ موطاامام محمد (1/ 61) میں ہے:
125- قال محمد : أخبرنا إسرائيل حدثني موسى بن أبي عائشة عن عبد الله بن شداد بن الهاد قال: أم رسول الله صلى الله عليه و سلم في العصر قال: فقرأ رجل خلفه فغمزه الذي يليه فلما أن صلى قال: لم غمزتني؟ قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم قدامك فكرهت أن تقرأ خلفه فسمعه النبي صلى الله عليه و سلم قال: من كان له إمام فإن قراءته له قراءة.
ترجمہ: حضرت عبد الله بن شداد رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی، حضرت عبد الله رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ کے پیچھے قراءت شروع کی تو ساتھ والے نے ان کو ہاتھ دبایا، جب نماز پڑھ لی تو اس آدمی نے کہا کہ آپ نے کیوں دبایا؟ تو دوسرے آدمی نے کہا کہ چونکہ حضورﷺ آپ کے آگے تھے تو مجھے پسند نہ ہوا کہ آپ حضور کے پیچھے قراءت کریں، یہ بات آپ ﷺ نے سن لی اور فرمایا: جب کسی کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لیے قراءت ہے۔
سنن النسائی (2/ 141) میں ہے:
921 – أخبرنا الجارود بن معاذ الترمذي، قال: حدثنا أبو خالد الأحمر، عن محمد بن عجلان، عن زيد بن أسلم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد”.
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: امام کو اس لیے امام بنایا گیا کہ تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، پس امام جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، اور جب امام قراءت شروع کرے تو تم خاموش رہو، اور جب سمع الله لمن حمدہ کہے تو تم اللهم ربنا لک الحمد کہو۔
صحيح مسلم (1/ 406) میں ہے:
حدثنا يحيى بن يحيى ويحيى بن أيوب وقتيبة بن سعيد وابن حجر ( قال يحيى ابن يحيى أخبرنا وقال الآخرون حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ) عن يزيد بن خصيفة عن ابن قسيط عن عطاء بن يسار أنه أخبره أنه سأل زيد بن ثابت عن القراءة مع الإمام ؟ فقال لا قراءة مع الإمام في شيء.
ترجمہ: عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی الله عنہ سے امام کے پیچھے قراءت کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قراءت نہیں۔
موطأ امام مالک (1/ 84) میں ہے:
187- وحدثني عن مالك عن أبي نعيم وهب بن كيسان أنه سمع جابر بن عبد الله يقول :من صلى ركعة لم يقرأ فيها بأم القرآن فلم يصل إلا وراء الإمام۔
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد الله رضی الله عنہ فرماتے ہیں: کہ جس نے رکعت پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی، مگر امام کے پیچھے (ہو تو قراءت نہ کرے)۔
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے متعلق آپ نے جو حدیث نقل کی ہےوہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق بن یسار ضعیف راوی ہے ان کے بارے میں علامہ ذہبی رحمۃ الله لکھتے ہیں:
(تذكرة الحفاظ للذهبي:1/ 172)
والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال والحرام.
ترجمہ: جس بات پر محدثین کا عمل ٹھہرا ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق بن یسار مغازی اور سیرت نبویہ میں تو مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں حالانکہ اس باب میں بھی وہ کچھ ایسی چیزیں ذکر کرتے ہیں جو ثقہ راویوں کے خلاف ہوتی ہیں، اور یہ کہ یہ شخص حلال اور حرام کے بارے میں حجت نہیں۔
لہذا صحیح احادیث کو چھوڑ کر ایک ضعیف روایت پر عمل کرنا درست نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved