- فتوی نمبر: 1-35
- تاریخ: 15 مارچ 2005
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماءدین و مفتیان دریں مسئلہ کہ زید نے عمرو سے قرض لیا ۔کچھ عرصہ بعد قرض دینے والے نے یعنی عمرو نے زید سے کہا کہ میں نے حکومت سے چالیس ہزار کے پرائز بانڈ لئے ہیں میرے لئے دعا کرو کہ میرا انعام نکل آئے ۔انعام نکل آیا تو قرض واپس نہیں لوں گا ورنہ واپس لوں گا قرض لینے والے زید نے کہا کہ ٹھیک ہے میں دعا کروں گا چنانچہ دو تین ماہ بعد جب قرعہ اندازی ہوئی ۔تو اس کا انعام نہ نکلا تو اس نے کہا کہ میرا انعام تو نہیں نکلا ۔زید نے کہا کہ میں نے تو دعا کر دی تھی ۔آپ کا نصیب کہ انعام نہ نکلا ۔تو دائن نے کہا ۔اچھا میں نے معاف کیا ۔اب سوال یہ ہے کہ انعامی بانڈ کیلئے دعا کرنا جائز تھا یا نہیں ؟ قرض معاف ہوا یا نہیں ؟ اس قرض سے خریدی گئی زمین کا استعمال اور اسکی آمدنی حلال ہے یا نہیں ؟ اس صورت کے بارے میں دو رائے ہیں ۔ ایک رائے یہ ہے کہ انعامی بانڈ کیلئے دعا کرنا جائز نہیں تھا تا ہم قرض معاف کرنے کا محض احسان اور تبرع ہے کہ قرض معاف کر دیا ہے اس سے قرض معاف ہو گیا ہے اور زمین کی آمدنی وغیرہ حلال نہیں ہے ۔دوسری رائے یہ ہے کہ دعا نا جائز تھی ۔اسکے بدلے میں جو قرض معاف کیا گیا معاف نہیں ہوا اور اس رقم سے خریدی گئی زمین کا استعمال جائز ہے۔ چنانچہ ہندیہ میں ہے:
ابراہ عن الدین مهمد عند السلطان لا یبرأ و هو رشوة. ( 4/ 398)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
صورتِ مسئلہ میں عمرو کا انعامی بانڈ کیلئے دعا کرنا تو جائز نہیں ۔
لقوله تعالی ۔تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان۔(سورة مائدہ )
اور ظاہر ہے کہ انعامی بانڈ کیلئے دعا کرنا ایک گونہ ناجائز کام کا تعاون ہے ۔باقی انعامی بانڈ نہ نکلنے کے باوجود زید کا اپنے مدیون کو بغیر کسی شرط کے اپنا دین معاف کر دینا یہ ابراعن الدین ممن علیہ الدین ،کی قبیل سے ہے جو کہ جائز ہے ۔اور دین اس کے کہنے کی وجہ سے معاف ہو گیا اور اس سے خریدی ہوئی آمدنی بھی حلال ہے : هبة الدین ممن علیه الدین و ابراءہ عنه یتم من غیر قبول: (شامی ص ۲۰۶ج ۸ بیروت )مذکورہ استفتاءمیں اول رائے درست ہے ۔لیکن زمین کی آمدن کے حلال نہ ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔نیز دوسری رائے درست معلوم نہیں ہوتی اور فتاویٰ ہندیہ کا منقولہ جزئیہ صورتِ مسئلہ پر منطبق نہیں۔ کیونکہ جزئیہ منقولہ میں دائن مدیون کو اپنا قرض اس لیے معاف کر رہا ہے تا کہ دائن کے کسی اہم کام کو بادشاہ کے پاس ٹھیک کروا دے اور اس کا رشوت ہونا ظاہر ہے ۔اور صورتِ مسئلہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اسے رشوت کہا جا سکے۔۔۔۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved