- فتوی نمبر: 25-380
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: عقائد و نظریات > منتقل شدہ فی عقائد و نظریات
استفتاء
حدثني عبد الله بن بريدةعن ابيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من حلف فقال اني بريء من الاسلام فان كان كاذبا فهو كما قال وان كان صادقا فلن يرجع الى الاسلام سالما.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قسم کھائے اور کہے میں اسلام سے بری ہوں (اگر میں نے فلاں کام کیا)اب اگر وہ جھوٹا ہے تو اس نے جیسا ہونے کو کہا ہے ویسا ہی ہو جائے گا اور اگر سچا ہے تو بھی وہ اسلام میں سلامتی سے ہرگز واپس نہ آ سکے گا۔
مجھے اس کا مفہوم سمجھا دیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس شخص نے قسم کھائی کہ میں اسلام سے بری ہوں اگر میں فلاں کام کروں تو اگر وہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے یعنی اس نے وہ کام کرلیا اوراس کاعقیدہ یہ تھاکہ وہ اس کلام کےبعدفلاں کام کرنےسےواقعۃکافرہوجائےگاتووہ کافرہوگیاکیونکہ وہ اس پرخودراضی ہےاوراگریہ عقیدہ نہیں تھابلکہ وہ اسےقسم سمجھتاتھاتوکافرنہیں ہوااور اگر وہ اپنی قسم میں سچا ہے تو بھی وہ اسلام کی طرف سلامتی کے ساتھ نہیں لوٹے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس قسم سے گنہگار ہوگا کیونکہ اس میں اسلام کی تخفیف اورکفر کی طرف میلان ہے۔
بذل المجھود(227/14)میں ہے:(حدثني عبد الله بن بريدة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من حلف فقال: إني بريء من الإِسلام) أي إن كذبت (فإن كان كاذبًا فهو كما قال) أي بريء من الإِسلام؛ لأنه رضي ببراءته من الإِسلام (وإن كان صادقًا فلن يرجع إلى الإِسلام سالمًا) لأن فيه نوع استخفاف بالإِسلام، وميل إلى الكفر.مرقاة المفاتيح (595/6)ميں ہے:(وإن كان صادقا )أي في حلفه على زعمه أعم من أن يكون مطابقا في الواقع أم لا (فلن يرجع إلى الإسلام سالما )أي يكون بنفس هذا الحلف آثما.در مختار (510/5)میں ہے:( و)القسم ايضا بقوله (ان فعل كذا فهو) يهودي او نصراني او فاشهدواعلي بالنصرانيةاو شريك للكفار او (كافر)فيكفربحنثه لوفى المستقبل اما الماضي عالما بخلافه فغموس واختلف في كفره (و)الاصح ان الحالف(لم يكفر)سواء (علقه بماض) اوآت ان كان عنده في اعتقاده انه (يمين وان كان) جاهلا و (عنده انه يكفر في الحلف) بالغموس وبمباشرة الشرط في المستقبل (يكفرفيهما) لرضاه بالكفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved