• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’جا تجھے علیحدگی مبارک، جا تجھے ہزاروں مرد مبارک‘‘

استفتاء

بخدمت جناب حضرت مفتی صاحب!

ایک شخص جس کا نام ***ہے جو کہ عرصہ 20 سال سے شادی شدہ ہے اپنی بیوی کو بہت زیادہ گالیاں دیتا ہے کئی مرتبہ اپنی بیوی کو مارا اور زخمی بھی کر دیا اسی طرح کئی مرتبہ جھگڑا کیا اور چونکہ نشہ کا عادی بھی ہے اس لیے گھر والوں نے مل کر کئی مرتبہ صلح کروائی، اسی اثناء میں دو مرتبہ واضح الفاظ میں طلاق دے  چکا ہے جس کے بعد تین دن کے اندر اندر صلح صفائی ہو گئی تھی لیکن گذشتہ طلاق کے پانچ سال بعد آج بھی جھگڑا کرتے ہوئے اس نے کہا کہ  ’’جا تجھے علیحدگی مبارک، جا تجھے ہزاروں مرد مبارک‘‘۔ کیا ان الفاظ کے کہنے سے بیوی کو تیسری طلاق بھی ہو گئی کہ نہیں۔ جواب عنایت فرما کر مشکور فرمائیں۔

پہلی مرتبہ کے الفاظ یہ تھے: ’’‘‘میں تجھے طلاق دیتا ہوں ‘‘، دو دفعہ یہ الفاط بولے تھے کہ تیسری دفعہ کہنے سے قبل اس کی ہمشیرہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا چنانچہ وہ تیسری دفعہ نہیں کہہ پایا۔

میاں کا معاملہ بیوی سے اچھا نہیں ہے گذشتہ 15 سال سے اپنی کا خرچہ بھی ہم  خود دے رہے ہیں۔ اب وہ تنگ آچکی ہے ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا سلسلہ ہو جاتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر نے پہلے دو دفعہ یہ الفاظ کہے تھے کہ  ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ اور اس کے بعد تین دن کے اندر اندر صلح بھی ہو گئی تھی اور اب تقریباً پانچ سال بعد لڑائی جھگڑا کے دوران اس نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ ’’جا تجھے علیحدگی مبارک ہو‘‘ تو اب اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو چکا ہے اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

توجیہ: دو طلاقیں ان الفاظ سے ہوئیں جو تقریباً پانچ سال پہلے دو دفعہ کہے تھے ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ اور تیسری طلاق ان الفاظ سے ہوئی جو اب کہے ہیں یعنی ’’جا تجھے علیحدگی مبارک‘‘ کیونکہ علیحدگی کا لفظ ہمارے محاورات میں کنایات کی تیسری قسم میں سے ہے جو غصے کے وقت نیت کی محتاج نہیں ہوتی۔

فتایٰ شامی (4/533) میں ہے:

والثالث من الكنايات يتوقف عليها في حالة الرضا فقط وأما في حالة الغضب والمذاكرة فيقع بلا نية.

امداد الاحکام (4/456) میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین متین و مفتیان شرع متین میں کہ *** نے *** کو تہمت زنا لگایا *** کے ساتھ جو *** کا

ماموں زاد بھائی اور اب وہ بمنزلہ حقیقی بھائی کے ہے اسی خیال پر *** نے *** کو کہا کہ ’’میں تم سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور اپنے باپ اور قاضی کو بلا لو میں بخوشی اسی وقت تمہارا نکاح *** سے کیے دیتا ہوں‘‘۔ اب *** *** سے سخت ناخوش ہے اور اس سے قبل *** *** سے ناراضگی کی حالت میں بارہا یہ الفاظ بھی کہہ چکا ہے کہ تم اپنے باپ کے گھر بیٹھی رہو میں اپنے گھر خوش تم اپنے گھر خوش اور خرچ وغیرہ بھی تم کو نہیں دوں گا۔

اب *** *** سے علیحدگی چاہتی ہے اس حالت میں *** کی *** سے علیحدگی کی موافق شرع شریف کے کیا صورت ہونی چاہیے بینوا توجروا  (بعض کلمات دوسرے پرچہ میں ہے)

میں تم سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور اپنے باپ اور قاضی کو بلا لو میں بخوشی لا دعویٰ ہوتا ہوں اور اسی وقت تمہارا نکاح *** سے کیے دیتا ہوں، میں خوشی سے لا دعویٰ ہوا اور پھر چھاتی ٹھوک کر کہا کہ میں لا دعویٰ ہو چکا۔ یہ الفاظ تین مرتبہ کہا اور یہ الفاظ کہے آٹھ ماہ کا عرصہ ہو چکا اور اس پر پردہ کرا دیا گیا ہے۔

الجواب: صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاق مغلظ واقع ہو چکیں اگر *** کو یہ الفاظ کہے ہوئے اتنا عرصہ گذر چکا جس میں *** کو تین حیض آچکے ہوں تو وہ اپنا دوسرا نکاح کر سکتی ہے اور اگر تین حیض ان کلمات کے بعد سے ابھی تک پورے نہیں ہوئے تو بعد اتمام عدت دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے *** سے بدون تحلیل کے اس کا نکاح درست نہیں۔

فإن قوله عليحدگی اختيار كرتا ہے بمعني جدائى وصرح في الخلاصه (2/100) إن في لفظة جدائي لا يحتاج إلى النية ثم قوله (خوشی سے لا دعویٰ ہوتا ہوں اور لا دعویٰ ہو چکا) وإن كان من الكنايات فإنها تلحق بالصريح ولا يحتاج إلى النية في حالة الغضب فإنها لا تصلح إلا لطلاق والجواب في عرفنا كما لا يخفى. والله أعلم‘‘ …………………………………………. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved