- فتوی نمبر: 23-164
- تاریخ: 03 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
آ پ سے قرآن وسنت کی روشنی میں نوازل اور جدید پیش آمدہ مسائل (جو غیر منصوص مسائل کے دائرہ کار میں آتے ہیں )کے حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات میں علمی راہنمائی مطلوب ہے۔
1 : کیا جدید فقہی مسائل (نوازل ) کے حل کے لیے سائنسی اکتشافات (مثلا جدید طبی تحقیقات ،فلکیاتی تحقیقات ،جدید وسائل روابط ،جدید وسائل تجارت وطریقہ ہائے کار )سے استفادہ ضروری ہے؟
2: کیا اصحاب فقہ وفتاوی کے اسلو بِ استدلال میں سائنسی اکتشافات سے استفادے کے اصول موجود ہیں ؟
3 : مفروضات (فقہ تقدیری ) کی طرح فقہی مسائل کے حل کےلیے سائنسی اصول بروئے کار لائے جاسکتے ہیں؟
4 :کیا سائنسی اکتشافات وتحقیقات کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی سے احکام فقہیہ وفتاوی میں بھی تبدیلی کی جائے گی؟
5 :نیز سائنسی اکتشافات سے استفادہ کے اصول کیا ہونے چاہیئں؟
6 : کیادور حاضر کے فقہائے کرام سائنسی اکتشافات وایجادات سے استفادے کے اصولوں کو اپنے فتاوی جات میں استعمال کررہے ہیں ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ سوالات کے تفصیلی جوابات اس موضوع پر ایک مقالے کے متقاضی ہیں جس کے لیے غیر معینہ مدت درکار ہے لہذا فی الحال تفصیلی جوابات سے معذرت خواہ ہیں تاہم بعد میں اس موضوع پر کام کرنے کا موقع ملا تو ان شاء اللہ مطلع کردیا جائےگا۔تاہم اجمالی جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
1: بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ضروری ہے ، وقت ضرورت اور قدر ضرورت کا فیصلہ کسی خاص مسئلے کی تفصیلی صورت حال کو سامنے رکھ کر کیاجاسکتاہے۔
2 :نہ ہماری نظر سے گزرے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کبھی غور کیا ہے، تاہم سرسری طور پر چند باتیں پیش خدمت ہیں (۱)کسی محظور شرعی کا ارتکاب نہ کرنا پڑےمثلاً سبب موت کی تحقیق کے لیے پوسٹ مارٹم کرنا۔(۲) جہاں ثبوت جرم کے لیے اقرار یا شہادت شرعی ضروری ہو وہاں محض سائنسی بنیادوں پر جرم ثابت کرنا صحیح نہ ہوگامثلا زنا کا ثبوت محض ڈی این اے (D-N-A)ٹیسٹ کی بنیاد پر نہ ہوگا تاہم متہم قرار دینے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے اور اس بنیاد پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے تاآنکہ مجرم خود اقرار کرلے ۔(۳)جن مسائل کا مدار رؤیت ظاہری پر ہے مثلا رؤیت ہلا ل تو ایسے مسائل میں سائنسی بنیاد پر ہلال ثبوت کافی نہ ہوگا یا مثلا دہی کو سائنسی بنیاد پر بیکٹیریا کا مرکب مان کر حیوان کاحکم نہیں لگاسکتے۔
3: جہاں ضرورت ہو وہاں لائے جاسکتے ہیں۔
4: تبدیلی ممکن بھی ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سائنسی تحقیق تبدیل ہونے کے باجود مسئلے میں تبدیلی نہ ہو، مثلاً کان میں دوا ڈالنے سے روزے کے فساد کے مسئلے میں جدید تشریح الابدان کی روشنی میں بعض معاصر اہل علم نے روزے کے لیے فساد کے حکم کو بدل دیا اور عدم فساد کا فتوی دے دیا جبکہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحب صاحبؒ نے باوجود جدید تشریح الابدان سے بخوبی واقف ہونے کے مسئلے میں تبدیلی نہیں فرمائی البتہ اس کی ایسی توجیہ کر دی جس سے جدید تشریح الابدان کے باوجود مسئلہ بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ توجیہ بھی خود فقہائے کرام سے منقول تھی۔ غرض حضرت مفتی صاحبؒ نے مسئلہ کو بدلنے کی بجائے توجیہ کے بدلنے کو ہی اہون سمجھا۔
5 : عمومی جواب دینا تو مشکل ہے کوئی خاص بات سامنےآئے تو کچھ کہا جاسکتا ہے، تاہم نمبر2 کے ضمن میں جتنی بات ذکر کر دی ہے وہ بہرحال ضروری ہے۔
6 : استفادہ تو کرتے ہی ہیں تاہم اس کے لیے زیادہ تر اسی صول کو سامنے رکھتے ہیں کہ استفادہ کرنے میں کوئی شرعی محظور لازم نہ آئے اور نہ کوئی شرعی اصول ٹوٹنے پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved