• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جنگلات میں "اعينوا عبادلله ” کہنے کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

ما یقول الرجل اذا ندت به دابته أو بعيره في سفره

جب سفر میں اونٹ یا جانور بدک جائے تو آدمی یوں دعا کرے

حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” ‌إِذَا ‌نَفَرَتْ دَابَّةُ أَحَدِكُمْ أَوْ بَعِيرُهُ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ لَا يَرَى بِهَا أَحَدًا، فَلْيَقُلْ: أَعِينُونِي عِبَادَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ سَيُعَانُ

حضرت ابان بن صالح رضی اللہ  تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کسی کا چوپایہ یا اونٹ جنگل میں بِدک کر بھاگ جائے اور اسے کوئی نظر نہ آئے تو وہ یوں کہے: اللہ کے بندوں ! میری مدد کرو۔عنقریب اس کی مدد کی جائے گی۔

مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر 30438 بریلوی حضرات اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ کہتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو غیب میں پکارا جا سکتا ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی نظر نہ آ رہا ہو اور آپ کا جانور کسی جنگل میں بدک جائے تو آپ غیب میں آواز لگائیں اور یہ کہیں کہ اے اللہ کے نیک بندو میری مدد کرو تو اس کی مدد کی جائے گی۔برائے مہربانی اس حدیث کا صحیح مفہوم، شان نزول اور اس کا صحیح مطلب سمجھائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس حدیث سے  بریلویوں  کا غیر اللہ کی نداء غیب اور استعانت پر استدلال کرنا  درست نہیں  کیونکہ اول تو مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے جس سے کسی عقیدے پر استدلال کرنا درست نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں عباداللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ فرشتے ہیں جن کا کام صحراء میں  مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا ہے چنانچہ  مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک دوسری  روایت میں یہ  مضمون ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو کراماً کاتبین کے علاوہ ہیں جو پتے درختوں سے گرتے ہیں وہ لکھ لیتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو  سفر میں کوئی مصیبت پہنچے تو  چاہیے کہ وہ "أعينوا عباد الله "( اے اللہ کے بندو  مدد کرو ) کہے ، اسی طرح مجمع الزوائد میں اس سے ملتی جلتی روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز گُم کر بیٹھے یا اسے مدد کی ضرورت ہو جبکہ وہ ایسی جگہ (جنگل میں ) ہو   جہاں انس دلانے والا کوئی نہ ہو تو  اسے چاہیے کہ وہ  "أعينوني عبادالله” (اے اللہ کے بندو میری مدد کرو) کہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھتے۔ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جن عباد اللہ سے مدد طلب کی جارہی ہے وہ غائب نہیں بلکہ وہاں موجود ہیں  صرف انسان کو دکھائی نہیں دے رہے  اس لیے یہ نداء ندائے غائب نہیں ہے جبکہ بریلوی جن بزرگوں کو اپنی مدد کے لیے پُکارتے ہیں  ان کے وہاں  موجود ہونے پر کوئی شرعی دلیل موجود  نہیں اس لیے وہ ندائے غائب ہے اور شرک ہے اس کے لیے ان احادیث سے استدلال  کرنا درست نہیں۔

مصنف ابن ابی شیبہ (رقم الحدیث: 3339) میں ہے:

عن ابن عباس، قال: ” إن لله ملائكة فضلا ‌سوى ‌الحفظة يكتبون ما سقط من ورق الشجر، فإذا أصابت أحدكم عرجة في سفر فليناد: أعينوا عباد الله رحمكم الله "

مجمع الزوائد (رقم الحدیث: 17103)  میں ہے:

عن عتبة بن غزوان، عن نبي الله – صلى الله عليه وسلم – قال: ” «إذا أضل أحدكم شيئا، أو ‌أراد ‌عونا، وهو بأرض ليس بها أنيس فليقل: يا عباد الله، أعینوا ; فإن لله عبادا لا نراهم وقد جرب ذلك

روح المعانی سورۃ المائدہ آیت نمبر35 میں ہے:

أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عدّه أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه

فتاویٰ رشیدیہ (ص:119) پر حضرت گنگوہی ایک طویل سوال کا طویل جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

اور بعض  روایات میں جو آیا ہے”أعينوني عبادالله”  تو وہ فی الواقع  کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباداللہ جو صحراء میں موجود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ نے ان  کو اسی کام کے لیے وہاں مقرر کیا ہے تو وہ اس باب [استعانت باہل القبور ] سے نہیں، اس سے حجت جواز پر لانا جہل ہے معنیٰ حدیث سے۔

گلدستۂ توحید، مصنفہ: مولانا سرفراز خان صفدرؒ (ص:142) میں ہے:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک حدیث آتی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: جب تم سے کوئی شخص جنگل میں سفر کررہا ہو اور تمہاری سواری کا جانور ہاتھ سے نکل جائے تو اس کو یہ کہنا چاہیے"يا عبادالله اعينوني” وفي رواية "يا عباد الله احبسوا فان لله حاضرا وفي رواية عبادا يستحبسه”[مجمع الزوائد]

جواب اول: یہ روایت ایک سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے جس کی سند میں  معروف بن حسان ہے، علامہ ہیثمیؒ لکھتے ہیں کہ ضعیف ہے [مجمع الزوائد]

امام ابن عدی کہتے ہیں کہ منکر الحدیث ہے[میزان]

امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ مجہول ہے[لسان المیزان]

دوسری سند حضرت عتبہ ؓ بن غزوان تک پہنچتی ہے اور آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں لیکن اس سند میں حسب تصریح علامہ ہیثمیؒ ورجاله وثقوا على ضعف في بعضهم ضعف، بعض راوی ضعیف اور کمزور ہیں اور دوسری خرابی یہ ہے کہ یزید بن علی راوی کی حضرت عتبہؓ سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ اس نے ان کو دیکھا ہےاور نہ ان کا زمانہ پایا ہے لہٰذا یہ روایت حضرات محدثینؒ کی اصطلاح میں منقطع ہے جو ضعیف ہوتی ہے۔[مجمع الزوائد،ج/10،ص:132]

جواب دوم: اگر ضعیف ہونے کے ساتھ اس حدیث کے الفاظ پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو معاملہ صاف ہوجاتا ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہے "وہاں کچھ خدا تعالیٰ کے بندے حاضر ہوتے ہیں” وہ کون ہیں؟ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے جنگلات میں رہتے ہیں جب تمہیں کچھ رکاوٹ پیدا ہو تو یہ کہا کرو "أعينوا عبادلله” [مجمع الزوائد،ج/10، ص:132] وقال رجاله ثقات

تو اس روایت سے ما فوق الاسباب مدد طلب کرنا ثابت نہ ہوا بلکہ وہاں جو فرشتے موجود ہوتے ہیں ان سے مدد طلب کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved