• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جانور اور بکری ادھیارے پر دینے کی چند صورتیں

  • فتوی نمبر: 5-375
  • تاریخ: 01 اپریل 2013

استفتاء

1۔ زید نے اپنی بکری عمرو کو ادھیارے پر دی اور کہا کہ تو اس کو چارہ وغیرہ ڈال جو کچھ اس کے حمل سے نفع ہوگا وہ نصف نصف ہوگا اگر کچھ بھی نقصان ہوا تو اس بکری کو تقسیم کریں گے قیمت لگا کر۔

2۔ زید نے اپنی بکری عمرو کو ادھیارے پر دی اس طرح کہ پہلے اس کی قیمت لگوا کر عمرو نے آدھی قیمت زید کو دے دی۔ اب عمرو بکری کو چرائے گا اور خیال رکھے گا جو کچھ پیدا ہوگا وہ نصف نصف۔

3۔ زید نے اپنے جانور بکر کو دیے کہ وہ ان کا خیال رکھے۔ سارا خرچہ زید پر ہے بکر ان کا دودھ نکالے گا ایک وقت کا دودھ زید لے گا اور ایک وقت کا دودھ بکر لے گا۔ باقی جانور زید کے ہی ہیں صرف چارہ کھلانا اور خیال رکھنا بکر پر ہے۔ اور یہ وہ اپنے گھر میں رکھے گا، چارہ وغیرہ کا خرچہ زید پر ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ بکری کے نصف پر معاملہ کرنا درست ہے۔ حمل پر دینا صحیح نہیں۔

2۔ جائز ہے کیونکہ جب عمرو نے آدھی قیمت زید کو دے دی جس کی وجہ سے عمرو بھی بکری اور اس کے منافع میں شریک ہوگیا۔ہاں البتہ عمرو اپنی خوشی سے اس کو چرانا چاہے اور خیال رکھے تو جائز ہے عمرو کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

و الحيلة في جنس هذه المسائل أن يبيع صاحب البيضة نصف البيضة و صاحب الدجاجة نصف الدجاجة من المدفوع إليه و يبرئه عن ثمن ما اشترى فيكون الخارج بينهما. ( عالمگیری: 4/ 446)

3۔ یہ صورت اگرچہ امام احمد بن حنبل رحمہ کی ایک روایت کے مطابق جائز ہے لیکن مشہور قول کے مطابق جائز نہیں کیونکہ دودھ کا حاصل ہونا آدمی کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس لیے متبادل جائز صورت یہ ہے کہ جانور کا مالک کچھ قیمت پر نصف جانور چرواہے کے ہاتھ فروخت کردے۔ جو دودھ ہوگا اس میں نصف نصف دونوں کا حق ہوگا۔

و لو استأجر راعياً لغنم بثلث درها و صوفها و شعرها و نسلها أو نصفه أو جميعه لم يجز نص عليه أحمد في رواية سعيد بن محمد النسائي لأن الأجر غير معلوم و لا يصلح عوضاً في البيع قال اسماعيل بن سعيد سألت أحمد عن الرجل يدفع البقرة إلى الرجل على أن يعلفها و يحفظها و ولدها بينهما فقال أكره ذلك و به قال أبو أيوب و أبو خثيمه … لأن النماء الحاصل في الغنم لا يقف حصوله على عمله فيها فلم يكن إلحاقه بذلك. و ذكر صاحب المحرر رواية أخرى أنه يجوز بناء على ما إذا دفع دابته أو عبده بجزء من كسبه و الأول ظاهر المذهب لما ذكرنا الفرق، و على قياس ذلك إذا دفع نحله إلى من يقوم عليه بجزء من عسله و شمعه يخرج على الروايتين فإن اكتراه على رعيها مدة معلومة بجزء معلوم منها صح لأن العمل و المدة و الأجر معلوم فصح كما لو جعل الأجر دراهم و يكون النماء الحاصل بينهما بحكم الملك لأنه ملك الجزء المجهول له منها في الحال فكان له نماؤه كما لو اشتراه. ( المغني لابن قدامه)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved