- فتوی نمبر: 7-306
- تاریخ: 22 جون 2015
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قربانی کے جانور میں عیت کی کتنی مقدار مانع اضحیہ ہے؟ اور کتنی مقدار کی گنجائش ہے؟ اس بارے میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے چار اقوال منقول ہیں، جس کو امام سرخسی رحمہ اللہ نے مبسوط میں ذکر کیا ہے:
1۔ قول اول بروایت امام محمد رحمہ اللہ: جو ظاہر روایت اور اصل کی روایت ہے، اگر ایک تہائی سے زیادہ عیب ہو تو قربانی جائز نہیں، اور اگر ایک تہائی یا اس سے کم ہو تو جائز ہے۔
2۔ قول ثانی بروایت بشر رحمہ اللہ: اگر ایک تہائی یا اس زیادہ عیب ہو تو قربانی جائز نہیں، اور اگر تہائی سے کم ہو تو جائز ہے۔
3۔ قول ثالث بروایت ابن شجاع رحمہ اللہ: اگر ایک چوتھائی یا اس زیادہ عیب ہو تو جائز نہیں، اور اگر چوتھائی سے کم ہو تو جائز ہے۔
4۔ قول رابع بروایت امام ابو یوسف رحمہ اللہ: اگر نصف یا اس سے زیادہ عیب ہو تو جائز نہیں، اور اگر نصف سے کم ہو تو جائز ہے۔
اسی طرح اس مسئلہ میں اصحاب ترجیح اور ارباب فتاویٰ کا بھی شدید اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ امام محمد رحمہ اللہ سے جو روایت منقول ہے فتاویٰ عالمگیری میں اسی کو راجح قرار دیا گیا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کی عبارت ملاحظہ ہو:
اختلف أصحابنا بين القليل و الثكثير فعن أبي حنيفة رحمه الله أربع روايات، و روی محمد رحمه الله عنه في الأصل و في الجامع أنه إذا كان ذهب الثلث أو أقل جاز، و إن كان أكثر لا يجوز، و الصحيح أن الثلث و ما دونه قليل، و ما زاد عليه كثير، و عليه الفتوی، كذا في فتاوی قاضي خان. (الفتاوی الهندية: 5/ 298)
اور بعض اردو فتاویٰ جات میں اسی قول کو اختیار کیا گیا ہے، چنانچہ فتاویٰ حقانیہ میں ہے:
"قربانی کے جانور میں کسی عضو کا ثلث سے زیادہ عیب دار ہونا قربانی پر اثر انداز ہوتا ہے، ثلث سے کم قربانی سے مانع نہیں، چونکہ نکیل ڈالنے سے جانور کی ناک میں معمولی سا سوراخ ہو جاتا ہے، جس کا قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
لما قال الإمام المجتهد أبو عبد الله بن الحسن الشيباني رحمه الله و إن قطع من الذنب أو الأذن أو الألية الثلث أو أقل أجزأه، و إن كان أكثر لم يجز. الجامع الصغير: 387". (حقانيه: 5/ 478)
اور جواہر الفقہ میں ہے:
"جس جانور کی تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔” (1/ 450)
"آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں ہے:
"جس جانور کی تہائی سے زیادہ کان یا دم کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔” (4/ 183)
اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے قول رابع بروایت امام ابو یوسف کو ترجیح دی ہے، یعنی اگر نصف یا اس زیادہ عیب ہو تو جائز نہیں، اور اگر نصف سے کم ہو، تو جائز ہے۔ اس کی عبارت ملاحظہ ہو:
والرابعة هي قولهما قال في الهداية . وقالا : إذا بقي الأكثر من النصف أجزأه ، وهو اختيار الفقيه أبي الليث ، وقال أبو يوسف : أخبرت بقولي أبا حنيفة فقال قولي هو قولك ، قيل هو رجوع منه إلى قول أبي يوسف ، وقيل معناه قولي قريب من قولك . وفي كون النصف مانعا روايتان عنهما اهـ. وفي البزازية : وظاهر مذهبهما أن النصف كثير اهـ . وفي غاية البيان : ووجه الرواية الرابعة وهي قولهما وإليها رجع الإمام أن الكثير من كل شيء أكثره ، وفي النصف تعارض الجانبان ا هـ أي فقال بعدم الجواز احتياطا بدائع ، وبه ظهر أن ما في المتن كالهداية والكنز والملتقى هو الرابعة ، وعليها الفتوى كما يذكره الشارح عن المجتبى ، وكأنهم اختاروها لأن المتبادر من قول الإمام السابق هو الرجوع عما هو ظاهر الرواية عنه إلى قولهما والله تعالى أعلم . (6/ 224)
اور اردو کتب فتاویٰ میں سے "احسن الفتاویٰ” میں شامی کی ترجیح کو اختیار کیا گیا ہے، عبارت درج ذیل ہے:
"کان یا دم کا نصف یا اس سے زائد حصہ کٹا ہوا ہو تو قربانی جائز نہیں۔” (7/ 515)
البتہ اکثر اردو فتاویٰ جات میں میں ان دونوں (فتاویٰ شامی و فتاویٰ عالمگیری) کی ترجیحات کو چھوڑ کر قول ثانی بروایت بشر رحمہ اللہ کو اختیار کیا ہے۔ حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ فتاویٰ رحیمیہ:
"ثلث حصہ کی مقدار یا اس سے زیادہ دم بریدہ بھیڑ وغیرہ کی قربانی درست نہیں”۔ ( 10/ 48)
2۔ قربانی کے مسائل کے انسائیکلو پیڈیا
"جس جانور کے پیدائشی کان نہیں، اس کی قربانی درست نہیں، یا کان تو ہیں مگر کسی کان کا تہائی حصہ یا زیادہ کٹ گیا ہو، تو
اس کی قربانی جائز نہیں”۔ (34)
3۔ قربانی کے احکام و مسائل (مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ):
"قربانی کا جانور اگر اندھا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہو یا ایک کان کی تہائی یا اس زیادہ کٹ گیا ہو
یا دم ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گئی ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں”۔ (19)
4۔ مسائل بہشتی زیور:
"جو جانور اندھا کانا ہو، یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی، یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو، یا ایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا تہائی دم، یا تہائی سے زیادہ کٹ کٹ گئی ہو، تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں”۔ (224)
5۔ قربانی کے فضائل و مسائل (عبد الرؤف سکھروی صاحب):
"حضرات فقہاء کرام نے ان احادیث کی تفسیر و تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جو جانور بالکل اندھا ہو، یا پاگل ہو، یا ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو، یا ایک کان کا تہائی حصہ، یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو، یا دم کٹ گئی ہو ۔۔۔ تو جائز نہیں”۔ (47)
اس پوری تفصیل کے بعد مندرجہ امور دریافت طلب ہیں:
1۔ امام صاحب رحمہ اللہ سے منقول چاروں روایات میں سے کونسا قول راجح اور مفتیٰ بہ ہے؟
2۔ اگر فتویٰ اس قول کے مطابق ہو جس کو اکثر اردو فتاویٰ جات نے لیا ہے (یعنی ایک تہائی یا اس سے زیادہ عیب مانع اضحیہ، اور ایک تہائی سے کم مانع اضحیہ نہ ہو گا) تو شامی اور عالمگیری کی ترجیحات کو چھوڑ کر اس قول کو اختیار کرنے کی وجہ ترجیح کیا ہے؟
برائے مہربانی اس مسئلے کی مکمل وضاحت بحوالہ تحریر فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
امام صاحب رحمہ اللہ سے مذکورہ چار قول منقول ہیں، اور ان میں سے تہائی سے زیادہ کا قول ظاہر الروایة ہے۔ تہائی والے قول میں مزید احتیاط ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا امام ابو یوسف رحمہ اللہ کو یہ فرمایا "قولي قريب من قولك” اس سے معلوم ہوا کہ چوتھائی کا قول بعید ہے، البتہ تہائی یا تہائی سے زیادہ کا قول نصف سے قریب ہے۔ تہائی اور اس سے زائد والے قول کو لیں تو اس میں تین اقوال شامل ہو جاتے ہیں۔ البتہ چوتھائی کا قول باقیوں سے بعید ہے، اس لیے ثلث و ما زاد کے قول کو لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں احتیاط بھی ہے، ظاہر الروایة کے قریب تر بھی ہے اور بقیہ دو اقوال کو شامل بھی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved