• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘۔ عدت گذرنے کے بعد طلاق دینا

استفتاء

السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے 8 برس قبل میری شادی ہوئی۔ میری شادی کے ایک ماہ بعد ہماری کہیں دعوت تھی، میرے میاں نے فون پر مجھے دھمکی دی کہ اگر تم میرے گھر والوں کے ساتھ گئی تو تمہیں طلاق دے دوں گا۔ صورت حال ایسی تھی کہ جانا پڑا۔ اس کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد میرے میاں کی مجھ سے دوبارہ لڑائی ہوئی تو انہوں نے کئی بار یہ الفاظ کہے کہ ’’جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘، پھر ہر دس سے بارہ دن بعد ہمارا جھگڑا رہنے گا اور اکثر جھگڑے کے دوران وہ مجھے یہ کہتے تھے کہ ’’جاؤ تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘، پھر شادی کے تقریباً سال ڈیڑھ سال بعد ایک مرتبہ جھگڑے کے دوران ایک یا دو بار یہ بھی کہا کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘، ایک سال پہلے لڑتے ہوئے مجھے کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں تم اپنی ماں کے پاس چلی جاؤ‘‘، اور کل لڑتے ہوئے مجھے کہا کہ ’’میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ قرآن و سنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں کہ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

وضاحت: 1۔  میرے شوہر  اپنی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کا استعمال کر چکے ہیں، لیکن ان الفاظ کی سختی کو نہیں مانتے یا نکاح پر ان الفاظ کے اثر کو نہیں مانتے۔

2۔ پہلی دفعہ کے الفاظ کے بعد مجھے تین ماہواریاں آ گئی تھیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے پہلی مرتبہ کے الفاظ سے کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ ایک طلاق بائن واقع ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، اب اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح ضروری ہو گا۔

توجیہ: پہلی مرتبہ جب خاوند نے یہ الفاظ کہے ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘۔ یہ الفاظ کنایہ کی تیسری قسم ہیں جس میں حالت غضب میں نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اس لیے ان الفاظ  سے ایک طلاق بائن پڑ گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ٹوٹ گیا  اور خاوند نے باقی الفاظ جو کہے چونکہ طلاق کی عدت پوری ہونے کے بعد کہے ہیں اس لیے وہ الفاظ بے اثر رہے۔

نوٹ: مذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے شوہر کا ان الفاظ کی سختی کو تسلیم کرنا ضروری نہیں، وہ الفاظ  جس حالت میں استعمال کیے گئے ہیں ان سے طلاق بہر حال واقع ہو جاتی ہے۔

في رد المحتار (2/ 522):

و الثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط و يقع في حالة الغضب و المذاكرة بلا نية.

و في فتح القدير (4/ 62):

و في حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد و السب إلا فيما يصلح للطلاق و لا يصلح للرد و الشتم … لأن الغضب يدل على إرادة الطلاق.

و في المحيط البرهاني (4/ 428):

و أما في حالة الغضب: كل ما لا يصلح جواباً للشتم و يصلح للطلاق الذي يدل عليه الغضب يجعل طلاقاً و لا يصدق الزوج في قوله و لم أنو به الطلاق.

و في الهندية (1/ 375):

و في حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد و السب إلا فيما يصلح للطلاق و لا يصلح للرد و الشتم … فإنه لا يصدق فيها.

و في الشامية (4/ 218):

و لو طلقها ثلاثاً بعد انقضاء عدة الطلاق الأول لم تقع و إن كانت في عدة الوطء.

…………………….فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved