• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس لڑکے کی شادی نہ ہو حدیث میں اس کو "مسکین” کہا گیا ہے اس حدیث کی تحقیق

استفتاء

نکاح آدھا ایمان ہے

حدیث پاک میں ہے:

انكاح نصف الايمان ( نکاح تو آدھا ایمان ہے)

ایک کنوارہ آدمی خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوجائے وہ ایمان کے کامل رتبے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ازدواجی زندگی میں داخل ہوکر حقوق وفرائض کو ادا نہ کرے تب تک اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ اس لیے جس لڑکے کی شادی نہ ہو اور وہ جوان العمر ہو حدیث میں اس کو "مسکین” کہا گیا ہے، جس لڑکی کی شادی نہ ہو اور وہ جوان العمر ہو حدیث پاک میں اس کو "مسکینہ” کہا گیا ہے ۔ گویا یہ لوگ قابل رحم ہیں کہ عمر کے اس حصے میں یہ ازدواجی زندگی گذارنے سے محروم ہیں۔

یہ جو مسکین والی بات ہے ا س کا کوئی حوالہ مل جائے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ بات شعب الایمان للبیہقی (رقم الحدیث: 5483)، المعجم الاوسط (رقم الحدیث:6589 )، سنن سعید ابن منصور(رقم الحدیث:488) وغیرہ میں موجود ہے اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:

عن هارون بن رئاب، عن أبي نجيح قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مسكين مسكين مسكين، رجل ليس له امرأة، وإن كان ‌كثير ‌المال. مسكينة مسكينة مسكينة، امرأة ليس لها زوج، وإن كانت كثيرة المال [المعجم الاوسط، رقم الحديث:6589]

نوٹ: نکاح کے بغیر ایمان مکمل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ غیر شادی شدہ کا ایمان کامل ہو ہی نہیں سکتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ عام طور  سے آدمی کی بے دینی کے دوبڑے سبب ہیں: (1) پیٹ (2) شرمگاہ یعنی آدمی پیٹ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خلاف شرع کام کرتا ہے یا شرمگاہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے خلاف شرع کام کرتا ہے، نکاح کرنے سے چونکہ آدمی شرمگاہ کے ناجائز استعمال سے عموماً محفوظ ہوجاتا ہے اس لیے احادیث میں اسے نصف الایمان کہا ہے۔

المعجم الاوسط (رقم الحدیث 7647)  میں ہے:

عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تزوج فقد ‌استكمل ‌نصف ‌الإيمان، فليتق الله في النصف الباقي

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح (5/2049) میں ہے:

 (وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تزوج العبد) أي: المرء (فقد ‌استكمل ‌نصف ‌الدين ) أي: كمل نصف دينه، ويجوز رفعه أي: يكمل نصفه وهو عطف على الشرط وجزاؤه قوله ( فليتق الله في النصف الباقي ) أي: في بقية أمور دينه، وجعل التزوج نصفا مبالغة للحث عليه. وقال الغزالي: الغالب في إفساد الدين الفرج والبطن وقد كفى بالتزوج أحدهما، ولأن في التزوج التحصن عن الشيطان، وكسر التوقان، ودفع غوائل الشهوة، وغض البصر، وحفظ الفرج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved