• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جسمانی تشدد کی بنیاد پر شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع

السلام علیکم! میرا نام ***ہے۔ میری شادی 12 نومبر 2018 کو *** سے ہوئی، میں نے خلع کا کیس کیا تھا  جس کا فیصلہ میرے حق میں ہوا   ہے، خلع لینے کی وجہ یہ تھی کہ میرا شوہر مجھ پر جسمانی تشدد کرتا تھا اور غیر شرعی کام کرتا تھا  جو اسلام میں حرام ہیں، اور ممنوع دنوں میں بھی ہمبستری کرتا تھا، میں منع کرتی تھی تو مجھے مارتا تھا اور مجبور کرتا تھا، اور جانوروں کی طرح پیش آتا تھا۔ شادی کے  چار سال تک میں نے برداشت کیا ، میں اس کو بار بار سمجھاتی رہی لیکن وہ باز نہیں آیا، اس وجہ سے میں نے اس کو کہا کہ میں طلاق چاہتی ہوں تو اس نے کہا کہ میں تو اپنے منہ سے نہیں دوں گا، تم عدالت سے جاکر طلاق لے لو، تو اس وجہ سے  میں نے خلع کا کیس کیا تھا۔ عدالت کی طرف سے اس کو خلع کے نوٹس ملے پھر میرا بیان ہوا  جس میں میں نے کہا کہ میں اپنے شوہر کیساتھ نہیں رہنا چاہتی، کوئی گنجائش باقی نہیں ہے، پھر جج کے سامنے  میرے شوہر کا بیان ہوا  تو اس نے بیان دیا کہ میں اس کے ساتھ گھر بسانا چاہتا ہوں لہٰذا یہ کیس جھوٹا ہے اسے خارج کیا جائے، پھر عدالت نے مجھے دوبارہ  بلایا اور پوچھا کہ آپ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں نہیں رہنا چاہتی تو عدالت نے اسی وقت میرے حق میں فیصلہ کردیا۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ عدالت نے تو خلع کا فیصلہ کردیا  ہے ،کیا واقعتاً خلع ہوگیا ہے یا نہیں؟ اور میرے شوہر نے یہ بیان کہ "میں اس کو بسانا چاہتا  ہوں”، اس لیے دیا  کہ میں نے اس پر جہیز کے سامان کا  بھی کیس  کیا ہوا ہے اور میرا ذاتی سونا ان لوگوں کے پاس ہے تو سامان سے بچنے کے لیے اس نے یہ بیان دیا  ہے ورنہ اس کو مجھے رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔باقی خلع کے کیس کی ساری فائل میں نے بھیج دی ہے، برائے مہربانی مجھے جلد از جلد اس کا جواب دیا جائے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

نوٹ: شوہر کا موقف معلوم کرنے کے لیے دار الافتاء سے مختلف اوقات میں کال کی گئی لیکن شوہر نے کال نہیں اٹھائی اس لیے شوہر کے بیان کے بغیر جواب لکھا جارہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر بیوی پر جسمانی تشدد کرتا تھا  اور غیر شرعی کام کرتا تھا جس کی تفصیل سوال میں مذکور ہے تو بیوی کے لیے سوال میں  مذکورہ  وجوہات کی بناء پر عدالت سے فسخِ نکاح کروانا درست ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں عورت کی طرف سے عدالت میں نکاح ختم کروانے کے لیے جو دعویٰ پیش کیا گیا تھا اس دعوے میں جو وجوہات ذکر کی گئی ہیں ان میں شوہر کا مارپٹائی کرنا اور جسمانی تشدد کرنا بھی مذکور ہے  اور خلاف شرع کام کرنا بھی مذکور ہے جو فقہائے مالکیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق     [جاری ہے]

فسخِ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لہٰذا اس قول کے مطابق عدالت کا فسخِ نکاح کا مذکورہ فیصلہ درست ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:

(ولها  التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها لا بمنعها من حمام وفرجة وتأديبها على ترك صلاة أو تسر أو تزوج عليها

[وفي حاشية الدسوقي تحته] قوله: (ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق

فتاویٰ عثمانی( 2/ 471 )میں ہے:

’’[عدالت کا] فیصلہ احقر نے پڑھا، اس فیصلے میں شوہر کے ضربِ شدید اور نا قابل برداشت جسمانی اذیت رسانی کی بنیاد پر مسماۃ ۔۔۔۔ کا نکاح فسخ کر دیا گیا، فسخ نکاح کی [یہ] بنیاد مالکی مذہب کے مطابق درست ہے، اور فقہاء حنفیہ نے ضرورت کے موقع پر اس مسلک کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved