• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جسمانی تشدد کی بنیاد پر یکطرفہ عدالتی خلع لینےکا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے عدالت سے خلع لیا  جس کے بارے میں جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں معلوم کرنا چاہتی ہوں۔

تفصیل یہ ہے کہ میری شادی میری خالہ کے بیٹے سے ہوئی جوکہ تقریباً ساڑھے تین سال چلی۔ اس ساڑھے تین سالوں میں میرے دو بیٹے پیدا ہوئے ، پہلا بیٹا  ایک سال بعد پیدا ہوا جس کی پیدائش میری والدہ کی طرف ہوئی اور دوسرے بچے کی پیدائش بھی تقریباً دو سال بعد میری  والدہ کی طرف ہوئی، اس دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے ہم دونوں میاں بیوی کا جھگڑا ہوا  اور میں اپنی والدہ کی طرف ناراض ہوکر  آگئی جب میرا دوسرا بچہ پیدا ہوا  تو میں نے اپنے سسرال والوں کو  ہسپتال بلا کر  دونوں بچے ان کے حوالے کردیے کہ پہلے بچے کو اور اس نئے پیدا ہونے والے بچے کو بھی خود ہی سنبھال لیں، میرے سسرال والے بچے لے جانے سے منع کرتے رہے مگر میرے اصرار پر وہ دونوں بچے اپنے گھر لے گئے، جس کے بعد دوسرا پیدا ہونے والا بچہ میرے شوہر کے گھر 40دن بعد فوت  ہوگیا جس کی وفات کی اطلاع میرے گھر والوں کو کی گئی اور میرے گھر والے بچے کے جنازے پر بھی گئے۔ اس کے بعد میں ناراض ہوکر اپنی والدہ ہی کی طرف رہتی رہی اور میرے سسرال والے وقتاً فوقتاً مجھے گھر واپس جانے کا کہتے رہے مگر میں نے ہر بار جانے سے انکار کردیا۔  اس کے بعد میں نے عدالت  میں خلع کا دعویٰ دائر کردیا جس میں میرے وکیل نے خلع لینے کے لیے کچھ باتیں  اپنی طرف سے جھوٹ لکھ دیں، جج نے میرے شوہر کو عدالت بلانے کے لیے تین بار نوٹس بھیجے مگر شوہر عدالت حاضر نہ ہوا اور میرے سے رابطہ کرکے مجھے صلح کا کہتا رہا مگر میں  نے انکار کردیا، میرے شوہر کے انکار کرنے کے بعد جج نے میرے وکیل کی طرف سے لکھی ہوئی تحریر کے مطابق مجھے خلع دیدیا، خلع کے بعد  بھی میرے شوہر نے کسی بھی کاغذات پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی زبانی یا تحریری مجھے طلاق دی اور نہ ہی خلع کو تسلیم کیا۔

میری اس شادی کے عرصہ میں میرے شوہر نے مجھے دو دفعہ مارا  بھی  تھا، ایک دفعہ تھپڑوں کے ساتھ اور مکوں کے ساتھ اور دوسری دفعہ تھپڑ مارے جبکہ میں حاملہ تھی، دونوں بار مار کٹائی کی نوبت لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

آخری سال میرے شوہر کی نوکری ختم ہوگئی جس وجہ سے ان کے والد یعنی میرے خالو مجھے  ، میرے شوہر کے کہنے پر خرچہ دیتے تھے۔، نوکری نہ ہونے کی وجہ سے میرے خالو میرے شوہر کو کہتے تھے کہ اپنی بیوی کا خرچہ خود اٹھاؤ اور جتنا عرصہ میں والدہ کی طرف ناراض ہوکر رہی وہ خرچہ نہیں دیتے تھے، تقریباً 8 ماہ تک۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

شوہر کا بیان لینے کے لیے دار الافتاء سے متعدد اوقات میں کال کی گئی لیکن شوہر نے کال اٹینڈ نہیں کی ۔ پھر شوہر کو میسج کیا گیا کہ اس مسئلے کے بارے میں اپنا بیان فراہم کرے بصورتِ دیگر یکطرفہ جواب جاری کردیا جائے گا جس کے بعد ہم شوہر کا بیان سننے کے پابند نہ ہوں گے تو شوہر نے رابطہ کرکے یہ بیان دیا:

’’یہ کافی پرانی بات ہے۔ میں نے بیوی کو کبھی نہیں مارا تھا اور نہ کبھی خرچے میں کمی آنے دی تھی۔ وہ خود ہی نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنی مرضی سے کورٹ سے خلع لے لیاتھا، میں نے کوئی طلاق نہیں دی تھی۔ اور اس کے بعد وہ نکاح کرچکی ہے۔ میں نے بھی اس کے بعد اور نکاح کرلیا تھا اور میرے اب بچے بھی ہیں۔ مجھے اب اس سے کوئی سروکار نہیں کہ حلال کررہی ہے یا حرام۔ یہ سب اس کے اپنے سر ہے‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعۃً  عورت اپنے بیان میں سچی ہے یعنی واقعۃً شوہر نے اسے تھپڑوں  اور مکوں سے مارا تھا تو مذکورہ خلع شرعاً بھی جائز تھا اور اس  کی رُو سے سائلہ کا اپنے شوہر *** سے شرعاً بھی نکاح ختم ہوگیا تھا۔ لہذا عورت کا کہیں اور نکاح کرنا درست ہے اور اگر عورت مار پٹائی  والی بات میں جھوٹ  بول رہی ہے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں اور اس کی رُو سے  شرعاً  نکاح بھی  ختم نہیں ہوا ۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں عورت نے عدالت سے نکاح ختم کروانے کے لیے جو دعویٰ پیش کیا تھا اس میں جو وجوہات ذکر کی گئی ہیں ان میں شوہر کا عورت پر جسمانی تشدد کرنا بھی  مذکور ہے اور عورت کے بیان میں بھی یہ درج ہے کہ شوہر نے عورت پر جسمانی تشدد کیا تھا۔ اور جسمانی تشدد فقہائے مالکیہ کے قول کے مطابق فسخِ نکاح کی بنیاد بن سکتا ہے، اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے وقت مالکیہ کے قول کو اختیار کرنے کی اجازت بھی  دی ہے لہٰذا اس قول کے مطابق خلع کا مذکورہ فیصلہ بطور فسخ نکاح کے شرعاً بھی درست ہے۔

مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل (5/228)میں ہے:

(ولها  التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وإيثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤلما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها…..

فتاویٰ عثمانی(2/471) میں عدالتی خلع کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں مذکور  ہے:

"جواب :منسلکہ فیصلہ احقر نے پڑھا ،اس فیصلے میں شوہر کے ضرب شدید اور ناقابل برداشت جسمانی اذیت رسانی کی بنیاد پر مسماۃ کا نکاح فسخ کر دیا گیا ،فسخ نکاح کی بنیاد مالکی مذہب کے مطابق درست ہے اور فقہائے حنفیہ نے ضرورت کے موقع پر اس مسلک کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لہذا عدالت کے فیصلے کے بعد مسماۃ کا نکاح  ختم ہو چکا ہے اب وہ عدت پوری کرے یعنی تین مرتبہ ایام ماہواری گزارنے کے بعد کہیں اور نکاح کر سکتی ہے ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved