- فتوی نمبر: 23-338
- تاریخ: 26 اپریل 2024
استفتاء
میری والدہ نے منّت مانی ہوئی تھی کہ میرے بیٹے کی جاب لگ جائےتو اس کی جو پہلی تنخواہ آئے گی میں وہ اللّه پاک کے نام پرخیرات کروں گی لیکن بیٹے کی جاب دوسرے شہر میں لگتی ہے اور وہاں پر سب خرچہ ہو جاتا وہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ بھی نہیں بچا پاتا اور والدہ منّت پوری نہیں کر پائی اور آگے بھی کچھ مہینے ایسے ہی چل سکتا ہے وہ جب تک دوسرے شہر میں ہے تو سب خرچہ ہی ہو جانا ہے اور وہ منّت پوری نہیں کر سکتا اس صورت میں کیا کرے کیوں کے والدہ کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں کے وہ اس منّت کو پورا کر سکے۔
وضاحت مطلوب: 1۔تنخواہ کتنی ہے ؟2۔جب والدہ نے یہ نذرمانی تھی تب ان کی ملکیت میں اتنے پیسے یا سونا چاندی وغیرہ تھا یا کچھ بھی نہیں تھا؟
جواب وضاحت: 1۔جب جاب کا کہا گیا تھا تو اس وقت 20000 کہا گیا تھا لیکن پہلی بار تنخواہ دن کے حساب سے 13700 ملی تھی اور دوسری تنخواہ پوری 20000 ملی تھی ۔2۔والدہ کے پاس چاندی بھی نہیں تھی اور نہ ہی سونا اور ہمارے اوپر قرضہ تھا اتنے پیسے نہیں تھے کہ منت اتار سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کی والدہ پر منت پوری کرنا لازم نہیں۔
شامی (5/ 526)میں ہے:وأن لا يكون واجبا عليه قبل النذر، فلو نذر حجة الاسلام لم يلزمه شئ غيرها، وأن لا يكون ما التزمه أكثر مما يملكه أو ملكا لغيره، فلو نذر التصدق بألف ولا يملك إلا مائة لزمه المائة فقط.خلاصة انتهى.فتاوی دارالعلوم دیوبند(12/97)میں ہے:
سوال:مادر کسے نذر کرد وقتیکہ فرزند من نوکر شود از تنخواه او حصہ چهلم بمسافران و موذنان را میدہم ایں نظر جائز است یا نہ و اگر فرزند تنخواه خود بمادر نہ دید چہ حکم است.
جواب: في الحديث لا وفاء لنذر في معصية ولا فيما لا يملك العبد رواه مسلم. پس نذر مذکور از تنخواه پسر خود کہ مملوک نیست صحیح نیست و وفاء آں بر پدرش مادرش لازم نیست و اگر پسر از تنخواہ خود آنچناں نکند کہ پدر گفتہ بود فرزند کردہ بود عاصی نخواہد شد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved