• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

1۔جو کنوارے مرجاتے ہیں کیا وہ شہید ہیں(2)شب جمعہ میں مرنے والوں کو کیا عذاب قبر ہوگا؟(3)کیا شہید کو رزق دیا جاتا ہے؟(4)اسلامی لحاظ سے دن کا آغاز

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1-کنوارے لوگ جو مر جاتے ہیں کیا وہ شہید ہیں؟

2-شب جمعہ میں مرنے والوں پر کیا عذاب قبر نہیں ہوتا؟

3-اور جو شہید ہیں کیا ان کو اپنے رب کی طرف سے کھانا پینا دیا جاتا ہے؟ یا وہ کھانا بھی ان تک پہنچتا ہے جو گھر والے ختم دلاکر کسی کو دے دیتے ہیں؟

4-نیز یہ بتادیں کہ کیا اسلامی تاریخ میں نیا دن مغرب کی اذان کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-ہمارے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں کہ جس سے ثابت ہوتا ہو کہ جو لوگ کنوارے مر جاتے ہیں وہ شہید ہوتے ہیں، البتہ بعض شارحین حدیث نے ایک حدیث کی تشریح میں یہ کہا ہے کہ جو عورت کنواری مرجائے وہ بھی شھید ہے، لیکن یہ بات بھی صرف عورت کے متعلق ہے مرد اس میں داخل نہیں۔

مؤطأ امام مالك (183)میں ہے:

فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله قد أوقع أجره على قدر نيته وما تعدون الشهادة قالوا القتل في سبيل الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم الشهداء سبعة سوى القتل في سبيل الله المطعون شهيد والغرق شهيد وصاحب ذات الجنب شهيد والمبطون شهيد والحرق شهيد والذي يموت تحت الهدم شهيد والمرأة تموت بجمع شهيد

اس حدیث کی شرح میں ہے:

اوجزالمسالك(4/392)

وفى المسوى: المعنى أن ماتت مع شيء مجموع فيها غير منفصل عنها من حمل أو بكارة.

ترجمہ : وہ عورت جو حمل کی وجہ سے مر جائے یا بکارت کی حالت میں مر جائے۔(الدر المنضود)

المسالك في شرح موطأ مالك (3/ 574)

المرأة تموت بِجُمعٍ تنبيهٌ على وَهَمٍ:قال البُونِيّ هي الّتي تموت بكرًا وهذا وَهَمٌ ما قاله أحدٌ، وأمّا المشهور من أقوال العلّماء إنّما هي الّتي تموت بِوَلَدٍ اجْتَمَعَ خَلْقُه.

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 284)

تموت بجمع بضم الجيم ويكسر وسكون الميم شهيد في النهاية أي تموت وفي بطنها ولد وقيل تموت بكرا والجمع بالضم بمعنى المجموع كالذخر بمعنى المذخور وكسر الكسائي الجيم أي ماتت مع شيء مجموع فيها غير منفصل عنها من حمل أو بكارة أو غير مطموثة۔

1-حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جمعہ یا شبِ جمعہ میں فوت ہونے والے کو عذاب قبر نہیں ہوتا۔ یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے لیکن چونکہ اس کے شواہد موجود ہیں اس لئے یہ حدیث صحیح یا حسن درجے کی ہے۔

سنن الترمذي (3/ 386)

عن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ المطالب العالیہ میں مذکورہ حدیث پر طویل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

و بالجملة فطرق هذا الحديث ومتابعته و شواهده كلها لا تخلو من مقال،لكن بمجموها يكون الحديث حسناَ أو صحيحاَ لغيره ،ولذلك رمز له السيوطي فى الجامع الصغير بالحسن كما في فيض القدير. (5/246)

و فى الجامع الأصول(4/272)

من مات ليلة الجمعة أو يوم الجمعة رفع الله عنه عذاب القبر نقول:و رواه أحمد فى المسند فالحديث بمجموع طرقه لا ينزل عن مرتبة الحسن.

2-شہداء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جانا قرآن و حدیث سے ثابت ہے، لیکن اس رزق کی نوعیت کیا ہوتی ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ،جو کھانا ختم دلاکر کسی کو بھی بھیجا( ایصال ثواب کیا) جاتا ہے خود وہ کھانا میت تک نہیں پہنچتا، البتہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔

تنبیہ:

ایصال ثواب کے لیے ختم دلانا ضروری نہیں بغیر ختم دلائے بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے، بلکہ مروجہ ختم دلانا بدعت ہے اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

چنانچہ قرآن مجید  میں ہے:

ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون(آل عمران 169)

ترجمہ:اور تو    ناسمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ مرد ےبلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے ہیں(ترجمہ شیخ الہند ؒ )

تفسير ابن كثير (2/ 161)

    يخبر تعالى عن الشهداء بأنهم وإن قتلوا في هذه الدار فإن أرواحَهم حية مرزوقة في دار القرار          سنن أبى داود (2/ 322)

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  لما أصيب إخوانكم بأحد جعل الله أرواحهم فى جوف طير خضر ترد أنهار الجنة تأكل من ثمارها وتأوى إلى قناديل من ذهب معلقة فى ظل العرش۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ تمہارے رفقاء،جو جنگ احد میں شہید ہوئے اللہ تعالی نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے پوٹو ںمیں رکھ دیا ہے وہ جنت کی نہروں پر آتے ہیں، اور وہاں پھل کھاتے ہیں پھر وہ ایسے قندیلوں میں بسیرا کرتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹکے ہوئے ہیں۔

3-اسلامی تاریخ میں نیا دن غروبِ آفتاب سےہی شروع ہوجاتا ہے ،خواہ مغرب کی اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔

چنانچہ شرح الکبیر (21/433)میں ہے:

و يتبع اليوم الليلة الماضيةلأن النهار تابع لليل،ولهذا يكون اول الشهر الليل

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved