- فتوی نمبر: 6-306
- تاریخ: 15 اپریل 2014
استفتاء
کشمیر کے ایک علاقہ میں موسم گرما میں لوگ اپنے مویشیوں کی ضرورت سے تین چار ماہ کے لیے پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں، جہاں عارضی بستیاں ہوتی ہیں، وہاں مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ تر عورتیں ہی ہوتی ہیں، مرد حضرات بہت کم جاتے ہیں کسی مجبوری بنا پر۔ اس بار گرمیوں میں کچھ لوگوں نے نماز عید وہاں ہی ادا کی، چونکہ عید اس بار گرمیوں میں تھی، لہذا وہاں کے لوگوں نے جمع ہو کر اس عارضی بستی سے تقریباً 05 کلومیٹر دور ایک میدان میں نماز عید ادا کی۔ حالانکہ وہاں قریب ہی ان لوگوں کی رہائشی بستی ہے جہاں کے یہ لوگ رہنے والے ہیں اور وہاں جا کر یہ لوگ عید بھی ادا کر سکتے ہیں آسانی کے ساتھ۔
ان کا وہاں عید پڑھنا کیسا ہے؟ اور آئندہ اس کا کیا حکم ہے؟
وضاحت: جنگل میں جانوروں کی وجہ سے پڑاؤ ڈالتے ہیں اور گرمی کا موسم وہیں گذارتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں جس جگہ نمازِ عید ادا کی گئی ہے نہ تو وہ شہر ہے اور نہ فنائے شہر اور نہ گاؤں ہے، لہذا عید کی نماز کا ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ رہی یہ بات کہ جو نماز پڑھی گئی وہ نوافل بن جائیں تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ نوافل کی جماعت بھی مکروہ ہے۔
(تجب صلاتها) في الأصح (علی من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة. (الدر المختار: 2/ 166)
و في التتارخانية ثم ظاهر رواية أصحابنا لا تجب إلا علی من يسكن المصر أو ما يتصل به فلا تجب علی أهل السواد و لو قريباً و هذا أصح ما قيل فيه اه. و به جزم في التجنيس قال في الإمداد: قنية قد علمت بنص الحديث و الأثر و الروايات عن أئمتنا الثلاثة و اختار المحققين من أهل الترجيح أنه لا عبرة ببلوغ النداء و لا بالغلوة و الأميال فلا عليك من مخالفة غيره و إن صح. (رد المحتار: 2/ 153)
و في القنية: صلاة العيد في القری تكره تحريماً أي لأنه إشغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة …و قال العلامة الشامي تحت قوله (بما لا يصح) أي علی أنه عيد و إلا فهو نفل مكروه لأدائه بالجماعة. (رد المحتار: 2/ 167)
© Copyright 2024, All Rights Reserved