- فتوی نمبر: 5-90
- تاریخ: 21 جولائی 2012
استفتاء
میں *** ولد **** نے سات مرلہ کی فیکٹری بھائی **** ولد *** سے مبلغ 4500000 رو پے میں خریدی۔ نو لاکھ میں نے نقد بھائی **** کو ادائیگی کی اور بقایا 3600000 کی ادائیگی کا ایک سال کا وعدہ کیا۔ بھائی **** صاحب کی فیکٹری پہلے سے کرایہ پر ہے۔ میں نے فیکٹری کے قبضے کے لیے 10 جون 2012ء تک فیکٹری خالی کروانے کا بھائی **** کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ 10 جون تک قبضہ لینا چاہتے ہیں تو میری فیکٹری کرایہ پر ہے، آپ نے باقی ادائیگی کا ایک سال کا وعدہ کیا ہے تو اگر آپ فیکٹری لینا چاہتے ہیں تو مجھے اس کا کرایہ دیں جب تک باقی رقم کا بندوبست نہیں ہوتا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے اتنی فیور دیں کہ کرایہ کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ میں نے فیکٹری خریدی ہے کرایہ پر نہیں لی۔ بہر حال لیکن یہ سمجھتا رہا کہ انہوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے اس لیے وہ 10 جون تک فیکٹری خالی کروا دیں گے۔ بھائی **** یہ سمجھتے رہے کہ اگر یہ فیکٹری کی باقی ادائیگی کر دیں گے تو میں ان کو قبضہ دے دوں گا۔
بھائی **** کا مطالبہ یہ ہے کہ اگر آپ قبضہ لینا چاہتے ہیں تو بقایا رقم کی ادائیگی کردیں اور قبضہ لے لیں اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ میں خریدار ہوں کرایہ دار نہیں ہوں۔ اس لیے آپ مجھ سے کرایہ کا مطالبہ نہ کریں۔ براہ مہربانی یہ مسئلہ بتادیں کہ ایسی صورت میں ان کا کرایہ لینا اور میرا کرایہ دینا بنتا ہے یا نہیں؟
اور جب تک میں بقایا رقم نہیں دیتا تو کیا میں پہلے قبضہ لے سکتا ہوں یا نہیں؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب آدمی کوئی چیز فروخت کر دیتا ہے تو فروخت کرتے ہی وہ چیز خریدار کی ملکیت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس کی ملکیت کے منافع اور فوائد کا حقدار بھی وہی ہوتا ہے۔ فروخت کرنے والے کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ صرف اتنا کر سکتا ہے کہ جب تک اسے پیسے وصول نہ ہوجائیں اس چیز کو اپنے پاس روکے رکھے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں *** مکمل ادائیگی تک قبضہ نہ دینا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس دورانیے کا کرایہ وصول نہیں کر سکتے۔ وہ مشتری ( *** ) کا حق ہے۔ ہاں اس کرائے کو اگر وہ فیکٹری کی باقی ماندہ رقم سے منہا کرنا چاہیں تو باہمی رضامندی سے ایسا کر سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved