- فتوی نمبر: 13-238
- تاریخ: 20 فروری 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پارکوں میں ،گھروں میں زمین اورگملوں میں خوبصورتی کےلیے کیکٹس تھورا اوراسی قسم کے جنگلی پودے لگائے جاتے ہیں ۔یہ پودے اگر چہ مکمل طور پر خاردار ہوتے ہیں لیکن موسم بہار میں ان میں بہت خوبصورت پھول کھلتے ہیں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ جنہم کے پودے ہیں ان کو نہیں لگانا چاہیے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ پارکوں اورگھروں میں لگانے کےبارے میں کیا حکم ہے؟ موجودہ پودے لگے رہیں یا ان کو نکال کرضائع کردیناچاہیے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زقوم جسے قرآن میں جہنم کاپودایا جنمیوں کی خوراک کہا گیا ہے وہ اصل تو جہنم میں ہوگا البتہ جہنم کے زقوم کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت کی وجہ سے جس پودے کو دنیا میں زقوم کہا جاتا ہے اس کی تعیین میں بھی مختلف اقوال ہیں ۔بعض حضرات تھور کےپودے کو زقوم بتلایا ہے بعض نے ناگ(ایک پودے کانام)کو زقوم بتلایا ہے اوربعض نے اس کا نام سیہنڈ بتلایا ہے بعض نے کہا ہے کہ دنیا کا زقوم ایسا زہریلا ہوتا ہے کہ اگر بدن سے چھوجائے تو تمام بدن میں زہر سرایت کرجائے اوروہ ہلاک ہوجائے اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اولاتو کیکٹس ،تھوراور اسی طرح کے جنگلی خاردار پودوں کو جہنم کے پودے کہنا درست نہیں اورجن حضرات نے تھوروغیرہ کے پودوں کو زقوم کہا ہے وہ محض تھوڑی بہت مشابہت کی وجہ سے کہا ہے ن ہاس وجہ سے کہ یہی پودے جہنم کے پودے یا جہنمیوں کی خوراک ہوں گے اور اس وجہ مشابہت کی وجہ سے بھی ان پودوں کی بطور خوراک استعمال کرنے کو ناجائز کہا جاسکتا ہے ان کے لگانے کواوران کی دیکھ بھال کرنے کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ۔
چنانچہ معارف القرآن (7/341)میں ہے:
دنیا کے درختوں میں یہ درخت نہایت بدبودار اوربذمزہ اور بدشکل ہوتا ہے اورایسا زہریلاہوتا ہے کہ اگر بدن سے چھوجائے توتمام بدن میں زہر سرایت کرجائے اوروہ ہلاک ہوجائے ۔مجاہد کی روایت میں ہے کہ شجرۃ الزقوم ایسا تلخ اوربدمزہ ہے کہ اگر اس کا ایک قطرہ بھی زمین پرگرپڑے تو تمام دنیا میں بسنے والوں کی زندگی برباد کردے۔شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اپنے فوائد قرآن کریم میں فرماتے ہیں کہ دوزخ کے اس درخت زقوم کو جس کو سیہنڈ کا درخت کہا جاتا ہے محض کسی ادنی مشابہت کی وجہ سے اس نام سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ دوزخ کے سیہنڈ کی کیفیت اللہ ہی کو معلوم ہے جس طرح کہ نعماء جنت اورجنت کے پھل ان ناموں سے تعبیر کیے گئے جو دنیا کے پھل ہیں محض اشتراک اسمی کی وجہ سے ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کے پھلوں کو جنت کے پھلوں سے کوئی نسبت نہیں ۔جنت کے پھل کروڑ ہا کروڑ درجہ بڑھ کر ہیں اسی طرح دنیا کے زقوم سے جہنم کا زقوم بلاشبہ کروڑ ہا کروڑ درجہ بدتر ہے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اپنی تفسیر بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں احقر اوردوصاحب علم ہندی الاصل مکی المسکن ایک مجمع میں تھے ان دو حضرات میں سے کسی ایک نے کہا مکہ میں زقوم کا پھل کھایا جاتا ہے جس کو برشومی کہتے ہیں اور قرآن سے وہ طعام اہل نار کا معلوم ہوتا ہے تو ایسی لذیذ چیز سے وعید کیا ہوئی ؟حضرت حکیم الامت ؒ فرماتے ہیں میں نے کہا قرآن شریف میں شجرۃ الزقوم آیا ہے ثمرۃ الزقوم نہیں آیا اورشجرہ ماکول نہیں ہے (تو یہ ممکن ہے کہ پھل کی کیفیت سے درخت کی کیفیت اورحالت جداہو)اوران دونوں صاحبوں اوراہل مجلس نے اس جواب کو بہت پسند کیا حضرت ؒ یہ بیان کرکے ارشاد فرماتے ہیں کہ اس جواب کی اس وقت ضرورت ہے کہ جب برشومی(درحقیقت)اسی زقوم کا پھل ہو اوراگر کوئی دوسری نوع ہے تو سوال بھی ساقط ہے۔
زقوم کاپھل کھانے اوراس کی خرید وفروخت کاحکم
سوال:بعض لوگ زقوم (تھوہر)کاپھل بڑے شوق سے کھاتے ہیں اورآجکل بازاروں میں اس کی خریدوفروخت بھی ہوتی ہے جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ زقوم جہنم کا درخت ہے اس لیے اس کا پھل کھانا اورخریدوفروخت جائز نہیں ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟
الجواب:دنیا کے زقوم اورجہنم کے زقوم میں زمین آسمان کافرق ہے اورزقوم کے پھل میں حرمت کی کوئی وجہ نہیں ہے لہذا اس کا کھانا اورخریدوفروخت دونوں جائز ہیں۔
قال العلامة الحصکفي رحمة الله عليه (البيع )شرعا مبادلة شي مرغوب في بمثله خرج غير المرغوب کتراب وميتة ودم الخ (الدر المختار علي هامش رد المحتار :ص کتاب البيوع )قال العلامة ابن نجيم (البيع )هو مبادلة المال بالمال بالتراضي…وفي کشف الکبير المال مايميل اليه الطبع …والمالية انما ثبت بتمول الناس کافة اوبتقوم البعض والتقوم يثبت بها وباباحة الانتفاع له شرعا (البحر الرائق جلد کتاب البيع :6/117)
زقوم نام کا ایک درخت جزیرہ عرب کے علاقہ تہامہ میں پایا جاتا ہے، اور علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ یہ دوسرے بنجر صحراؤں میں بھی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے یہ وہی درخت ہے جسے اردو میں ”تھوہڑ“ کہتے ہیں، اسی کے قریب قریب کا ایک اور درخت ہندوستان میں ”ناگ پھن“ کے نام سے معروف ہے۔ بعض حضرات نے اس کو زقوم قرار دیا ہے اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ اب حضرات مفسرین کی رائیں اس میں مختلف ہیں کہ جہنمیوں کو جو درخت کھلایا جائے گا وہ یہی دنیا کا زقوم ہے، یا کوئی اور درخت ہے؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہی دنیا کا زقوم مراد ہے، اور بعض نے کہا کہ دوزخ کا زقوم بالکل الگ چیز ہے، دنیا کے زقوم سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں، لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوؤں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے، اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہو گا، لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا۔(معارف القرآن7/441)
© Copyright 2024, All Rights Reserved