• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

خبر اور حکایت کے طور پر طلاق کے الفاظ کا اعادہ

استفتاء

شوہر کا بیان

مولانا صاحب!

2012 میں میں نے پہلی طلاق دی تھی، میں نے کہا تھا کہ ’’میں قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایک طلاق دی‘‘۔ 2014 میں دوبارہ میں نے طلاق دی وہ اس طرح کہ میں جھگڑا کر کے گھر سےچلا گیا تھا۔ اس کے بعد میری سالی کا فون آیا میں نے اسے کہا کہ ’’میں تمہاری بہن کو نہیں رکھنا چاہتا، میری طرف سے فارغ ہے، میری طرف سے اسے طلاق ہے‘‘ اس نے فون بند کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد میری بیوی کا فون آیا تو میں نے اسے بھی یہی کہا کہ میں نے تمہیں فارغ کیا، طلاق دی۔ چونکہ میری بیوی نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے باجی سے کیا کہا تھا تو میں نے دوبارہ وہی الفاظ دہرائے۔ اس طلاق کے بیس پچیس دن بعد ہماری آپس میں صلح ہو گئی تھی۔

نوٹ: میری اہلیہ کی جانب سے بیان قدرے مختلف ہے مگر میری جانب سے مذکورہ بالا بیان حتمی اور فائنل ہے۔

مطیع اللہ  (بقلم خود)

وضاحت: مورخہ 24 اپریل 2017ء کو خاوند مطیع اللہ دار الافتاء میں حاضر ہوا اور اپنا تحریری بیان ساتھ لایا۔ چونکہ اس کے پہلے سے سامنے آنے والے بیانوں میں قدرے فرق تھا اس لیے اسے اپنا کوئی ایک بیان فائنل اور حتمی کرنے کا کہا گیا اس نے سوچ

بچار کےبعد مندرجہ بالا بیان حتمی قرار دیا اور پہلے بیانوں کو کالعدم قرار دیا۔                  (از: دار الافتاء)

بیوی کا بیان

میرے اور میرے میاں کی لڑائی 2012 میں پہلی دفعہ ہوئی۔ اس وقت میرے شوہر نے مجھے ایک طلاق دے کر کہا  کہ ’’میں قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ن ےتمہیں ایک طلاق دی‘‘۔ اس کے بعد ہماری 20 یا 22 دن کے بعد صلح ہو گئی۔ اس کے بعد ہماری دوبارہ لڑائی 2014ء کو ہوئی جس میں میرے شوہر جھگڑا کر کے گھر سے چلے گئے تقریباً 6 دن بعد میری بڑی بہن میرے گھر آئی اور اس نے میرے شوہر کو صلح کے لیے فون کیا جبکہ میرے شوہر نے آگے سے کہ ’’تمہاری بہن میری طرف سے فارغ ہے‘‘۔ میری باجی نے کہا  ’’فارغ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو میرے شوہر نے کہا ’’فارغ‘‘ سے مراد ہے   ’’میں نے اسے طلاق دی‘‘ باجی نے فون بند کر کے مجھے بتایا کہ تمہارے شوہر یہ کہہ رہے ہیں، مجھے یقین نہیں آیا پھر میں نے اسی وقت دوبارہ فون کیا کہ کیا آپ نے یہی کہا ہے تو انہوں نے کہا ہاں، مجھے پھر بھی یقین نہیں آیا میں نے کہا کہ مجھے آپ کے منہ سے سننا ہے تو انہوں نے کہا  ’’میں نے تمہیں فارغ کیا طلاق دی‘‘۔

اس کے بعد چونکہ میرا تعلق اہلحدیث مسلک سے تھا اور میرے شوہر دیوبندی تھے تو میں نے اہلحدیث مولوی صاحب سے زبانی پوچھا، انہوں نے کہا کہ آپ کو دو طلاقیں ہوئیں ہیں جبکہ میرے سسرال والے کہتے ہیں کہ تمہیں تینوں طلاقیں ہو گئیں ہیں اور تم حرام رہ رہی ہو۔ جبکہ میرے شوہر میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں میرے سسرال والے کہتے ہیں کہ حلالہ کرو پھر رہو۔

برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ کیا مجھے تینوں طلاقیں ہو گئی ہیں یا نہیں؟ غیر جانبدارانہ فیصلہ دیں تاکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں خاوند کی طرف سے دیے گئے اپنے حتمی اور فائنل بیان کے مطابق تین طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا ہے اب نہ  رجوع ہو سکتا ہے اور نہ ہی صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: کیونکہ ایک صریح طلاق تو 2012 میں خاوند نے دیدی تھی اور پھر رجوع بھی کر لیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ 2014 میں جھگڑا ہوا جس میں خاوند نے بیوی کی بہن کو فون پر کہا کہ ’’میں تمہاری بہن کو نہیں رکھنا چاہتا میری طرف سے فارغ ہے‘‘ یہ جملہ  میری طرف سے فارغ ہے اس سے ایک طلاقِ بائنہ واقع ہوئی کیونکہ ’’میری طرف سے فارغ ہے‘‘ کا لفظ کنایہ کی تیسری قسم سے تعلق رکھتا ہے جو غصے کی حالت میں نیت کے محتاج نہیں ہوتے۔

پھر اس جملے کے فوراً بعد خاوند نے کہا کہ ’’میری طرف سے اسے طلاق ہے‘‘ اس جملے سے تیسری طلاق واقع ہو گئی کیونکہ یہ لفظ صریح ہے اور صریح طلاق بائن کو لاحق ہو جاتی ہے۔ لہذا کل تین طلاقیں واقع ہو گئیں۔

نوٹ: بیوی کا بیان اگرچہ خاوند کے بیان سے کچھ مختلف ہے مگر طلاق کا معاملہ چونکہ مرد کے ہاتھ میں ہے اس لیے خاوند کا اپنا اقرار ہی اس بارے میں معتبر ہو گا۔

فتاویٰ شامی (2/505) میں ہے:

والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط و يقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.

فتاویٰ شامی (3/306) میں ہے:

الصريح يلحق الصريح والبائن والبائن يلحق الصريح لا البائن… فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved