• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ختمِ خواجگان کا حکم

استفتاء

ختم خواجگان کا کیا حکم ہے؟ بعض لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں خانقاہ میں کسی دن نہ ہونے پر بحث مباحثہ کرتے ہیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ختم ِخواجگان وظائف کی قبیل سے ہےجس کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے پڑھنا جائز ہے شرعی حدود میں سے یہ امور بھی ہیں کہ اسے دین کا کوئی حکم نہ سمجھا جائے نہ اسے ثواب کا کام سمجھا جائے اور جو اس میں شریک نہ ہو اسے مطعون بھی نہ ٹھہرایا جائے۔اور نہ ہی اس کی کوئی عمومی تحریک کی جائے۔

خیرالفتاوی (1/329) میں ہے:

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ختم خواجگان ہمیشہ روزانہ خاندانِ نقشبندیہ میں پڑھا جاتا ہے  چنانچہ جب  سےجنگ  پاک وہند شروع ہوئی ہے فجرکی نماز میں امام مسجد قنوتِ نازلہ بھی پڑھتے ہیں اور بعد نماز ظہر چند مقتدیوں کو شامل کرکے ختم بھی پڑتے ہیں اور یہ امام مجددیہ خاندانِ نقشبندیہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ جو کام قرآن و حدیث اور فقہ میں نہ ہو وہ خلاف شریعت ہے۔

الجواب: ختم خواجگان مذکورہ بالا درود وظائف کے قبیل سے ہے یہ کوئی خلاف شریعت کلمات پر مشتمل نہیں ہے پس اس کے پڑھنے سے کوئی نقصان و حرج نہیں البتہ اسے شرعی حکم کی حیثیت نہ دی جائے کہ تارک  پر نکیر کی جانے لگے جو شخص خوشی سے شریک ہو ٹھیک ہے اور شریک نہ ہونے والے پر کوئی الزام نہیں کسی امر کے بدعات اور ممنوع بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا شرعا  ثبوت بھی نہ ہو اور اسے دینی حکم بنالیا جائے اور اس کے نہ کرنے والے کو مطعون ٹھہرایا جائے۔

فقہی مضامین (صفحہ نمبر 147,148) میں ہے:

رقیہ وعلاج اور دفع مصائب کے لئے اجتماعی ذکر اور قرآن خوانی اور ختم خواجگان وختم بخاری شریف جائز ہیں کیونکہ یہ عبادت اور ثواب کے طور پر نہیں ہوتے ۔بلکہ ان کی حیثیت عملیات اور علاج کی ہے۔ البتہ  عوام میں ایک عام معمول کے طور  پر ان کو رواج دینے کی تحریک کرنا صحیح نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved