• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پاکستانی قانون میں مسلمان کی تعریف

استفتاء

عرض ہے کہ حکومت ،ریاست پاکستان نے ایسی قانون سازی کی ہوئی ہے جو ملک ،قوم اور معاشرے میں مذہبی امتیاز اور تفریق کی بنیاد اور سبب ہے، ایسے قوانین متعارف کروائے گئے ہیں اور ایسی ترامیم میں منظور کی گئی ہیں جو سراسر دین اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں ،بالکل خلاف ہیں اور صریحاً خلاف ہیں ۔پاکستان کے آئین میں جو شقیں  اسلام کے نام پر متعارف کروائی گئیں ان میں مسلم کی تعریف بھی شامل ہے اور آئین کے مطابق مسلم کی تعریف یہ ہے:

Article 260: Definitions

Constitution (Second Amendment) Act 1947

"Muslim” means a person who believes in the unity and oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the prophethood of Muhammad (Peace be upon him), the last of the prophets and does not believe in, or recognized as a Prophet or religious reformer, any person, who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsover, after Muhammad (peace be upon him)

مسلم وہ  شخص  ہے جو اللہ تعالی کی وحدانیت و یکتائی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اور ناقابلِ حصول ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی ایسے شخص کو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرتا ہو کسی بھی معانی اور مفہوم میں نبی یا مذہبی مصلح نہ مانتا یا تسلیم کرتا ہو۔

انہی قوانین کا نفاذ اور اطلاق ایسے طریقے سے کیا گیا کہ ان کے تحت بعض مقامات پر مسلم شہریوں کو( جو بعض امور کے لیے درخواست گزار ہوں یا امیدوار ہوں )ایک ایسا حلفیہ بیان لازمی دینا ہوتا ہے جو مخصوص الفاظ ،ترکیب سے مرتب کیا گیا ہے جو کم و بیش اس طرح ہے:

Declaration in case of Muslim applicant.

I am a muslim and believe in the absolute and unqualified finality of Prophethood of Muhammad (peace be upon him) as the last of the prophets.

I do not recognise any person, who claims to be a prophet in any sense of the word or of any description whatsover after Muhammad (Peace be upon him) or recognize such a claimant as a prophet or religious reformer or a Muslim. I consider Mirza Ghulam Ahmad Qadiani to be an imposter nabi and also consider his followers weather belonging to Qadiani or Lohari group to be non-Muslim.

ترجمہ :مسلم امیدوار کے لئے حلفیہ بیان

میں ایک مسلمان ہوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلق اور ناقابل حصول ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہوں بحیثیت آخری نبی میں کسی ایسے شخص کو جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی معنی اور مفہوم میں نبوت کا دعوی کرتا ہو تسلیم نہیں کرتا اور کسی ایسے دعوے دار کو نبی یا مذہبی مصلح کے مسلمان تسلیم نہیں کرتا ۔میں مرزا غلام احمد قادیانی کو ایک جھوٹا نبی سمجھتا ہوں اور اس کے پیروکاروں کو خواہ وہ قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہوں غیر مسلم سمجھتا ہو ں۔

اس معاملے کے جملہ پہلو ؤں اور اس کے متعلق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ پیش نظر رکھیں اور رہنمائی فرمائیں:

  1. کیا ریاست ،حکومت کو شہریوں کے مذہبی معاملات میں دخل دینا چاہیے یا غیرجانبدار اور معتدل رہنا چاہیے؟
  2. کیا ریاست ،حکومت پاکستان اللہ کے دین اسلام کے اوپر کوئی مجاز حاکم ہے؟ ایسا حق، اختیار رکھتی ہے کہ ایسا قانون بنائے اور ایسا اطلاق کروائے؟
  3. کیا مسلم کی یہ تعریف اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ یا اس سے تجاوز اور انحراف کرتی ہے ؟کیا یہ حلفیہ بیان اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے اور اسے دینا چاہیے؟
  4. کیا کوئی بھی حلفیہ بیان ،قسم ،شہادت جسے بندہ لکھ کر دستخط کرکے دے ،سوچ سمجھ کر، سچے دل سے ،حق اور سچ سمجھ کر دینا چاہیے یا یوں ہی لاپرواہی سے بغیر سوچے سمجھے، لوگوں کے کہنے سننے اور دیکھا دیکھی دے دینا چاہیے؟
  5. کیا جو بات انسان کے دل، ضمیر کے خلاف ہو، اس پر دل راضی اور مطمئن نہ ہو ،اسے حق و سچ نہ سمجھتا ہو، اسے ایسی بات کی گواہی، حلفیہ بیان قسم کھا کر دینا چاہیے؟
  6. اگر کوئی اس قانون کوصحیح نہ سمجھتا ہواور ایسا حلفیہ بیان نہ دینا چاہتا ہو تو وہ کیا کرے؟
  7. کیا اس کا قبر ،حشر اور آخرت میں سوال نہیں ہوگا؟
  8. اگر کوئی کسی کے اعتبار پر ایسا حلفیہ بیان دیگا تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی ؟جس پر ذمہ داری ہوگی، کیا وہ قبر حشر اور آخرت میں بھی اس کا بوجھ اٹھائے گا ؟
  9. کیا یہ واضح طور پر اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا نہیں ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آئین کے مطابق مسلم کی مذکورہ تعریف  اور اس تعریف کے مطابق بعض امور کے لیے امیدوار کا حلفیہ بیان اسلامی تعلیمات کے خلاف نہیں اور جہاں حکومت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس حلفیہ بیان کی ضرورت محسوس کرے یعنی جن جگہوں اور عہدوں پر امیدوار کا اسلام کی رو سے مسلمان ہونا ضروری ہو وہاں اسلامی حکومت اس میں مداخلت کر سکتی ہے بلکہ کرنی چاہیے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved