• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

خطبہ حجۃ الوداع کا واقعہ

استفتاء

ایک سوال کا تفصیلی جواب چاہیے خطبہ حجۃ الوداع کا تفصیلی واقعہ بھیج دیں عربی اردو میں جس طرح تبلیغی جماعت والے بیان کرتے ہیں۔جزاک اللہ خیراً

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

خطبہ حجۃ الوداع   کا تفصیلی واقعہ متعدد کتب  ِ حدیث و سیرت   مثلا سنن الترمذی (3087) ،مسند احمد (22391) ، زاد المعاد ، شرح المواہب للزرقانی  وغیرہ میں منقول  ہے۔ ذیل میں  صحیح بخاری و صحیح  مسلم سے اس واقعہ کو نقل کیا جاتا ہے ۔

صحیح مسلم (رقم الحدیث1218) میں ہے :

عن جابر قال …….وأمر بقبة من شعر تضرب له ‌بنمرة. فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تشك قريش إلا أنه واقف عند المشعر الحرام. كما كانت قريش تصنع في الجاهلية. فأجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى أتى عرفة. فوجد القبة قد ضربت له ‌بنمرة. فنزل بها. حتى إذا زاغت الشمس أمر بالقصواء. فرحلت له. فأتى بطن الوادي. فخطب الناس وقال: “إن دماؤكم وأموالم حرام عليكم. كحرمة يومكم هذا. في شهركم هذا. في بلدكم هذا. ألا كل شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع. ودماء الجاهلية موضوعة. وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن الحارث. كان مسترضعا في بني سعد فقتلته هذيل. وربا الجاهلية موضوع. وأول ربا أضع ربانا. ربا عباس بن عبد المطلب. فإنه موضوع كله. فاتقوا الله في النساء. فإنكم أخذتموهن بأمان الله. واستحللتم فروجهن بكلمة الله. ولكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه. فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح. ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالممعروف. وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به. كتاب الله. وأنتم تسألون عني. فما أنتم قائلون؟ ” قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأديت ونصحت. فقال بإصبعه السبابة، يرفعها إلى السماء وينكتها إلى الناس “اللهم! اشهد اللهم! اشهد” ثلاث مرات ثم أذن. ثم أقام فصلى الظهر. ثم أقام فصلى العصر …..

ترجمہ : حضرت جابرؓ     کہتے ہیں (نویں ذوالحجہ کو جب سورج طلوع ہوگیا) رسول اللہ ﷺ نے بالوں کا بنا ہوا خیمہ (عرفات کے قریب لیکن اس سے باہر مقام) نمرہ میں لگانے کا حکم دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ (منیٰ سے) چلے اور قریش کو (پورا یقین تھا اور ) کچھ بھی شک نہ تھا کہ آپ ﷺ مشعر حرام (یعنی مزدلفہ) میں ٹھہریں گے (اور اس سے آگے عرفات نہ جائیں گے) جیساکہ قریش جاہلیت میں کرتے تھے (کہ اور لوگ تو عرفات میں جا کر وقوف کرتے تھے لیکن قریش مزدلفہ ہی میں ٹھہر جاتے تھے آگے عرفات نہ جاتے تھے) لیکن رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ عبور کیا یہاں تک کہ آپ عرفات کی طرف آگئے۔ نمرہ نامی جگہ پر آپ نے اپنے لئے خیمہ لگا ہوا پایا۔ آپ ﷺ نے وہاں پڑاؤ  کیا یہاں تک کہ جب سورج کا زوال شروع ہوا تو آپ  ﷺنے (اپنی اونٹنی) قصواء کے بارے میں حکم دیا (کہ اس کو لایاجائے) تو آپ ﷺ کے لئے اس پر کجاوہ کس دیا گیا (اور آپ کے سامنے پیش کر دی گئی ) آپ ﷺ (اس پر سوار ہوئے اور عرفات سے کچھ باہر عرفہ نامی) بطن وادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا اور (اس میں ) فرمایا  : ”   بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے اموال (آپس میں ) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں ہے ۔ سنو !جاہلیت کے معاملہ کی ہر چیز (آج) میرے قدموں تلے ہے اور جاہلیت کے زمانے کے تمام  خون ختم کیے جاتے ہیں  اور ہمارے خونوں میں سے سب سے پہلا خون جس کو میں ختم کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے جو بنو سعد کے قبیلہ میں دودھ پیتا تھا اور ہذیل نے اس کو قتل کر دیا تھا اور جاہلیت کا سود بھی ختم  کیا جاتا ہے اور اپنے سود میں سے پہلا سود جس کو میں ختم کرتا ہوں وہ (میرے چچا)عباس ؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے جو سب کا سب ختم  کیا جاتا ہے۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امان (کے عہد) کے ساتھ لیا ہے (کہ ان کے ساتھ نرمی اور اچھی معاشرت رکھو گے) اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے اور تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو (خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں داخل کرکے) مت بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو۔ (اس کے باوجود بھی) اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں ایسی مار مار سکتے ہو جو سخت اور زخمی کرنے والی نہ ہو اور ان کا تم پر اپنے طعام و لباس کا (بھلے) رواج کے موافق حق ہے اور میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر اس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے یعنی کتاب الٰہی کو تو اس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ اور تم سے میرے بارے میں سوال ہوگا تو تم کیا جواب دو گے ؟ صحابہ  کرام ؓ نے جواب دیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کو (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانے والی تمام باتوں کو) پہنچایا اور امانت ادا کر دی اور نصیحت (و خیر خواہی کے پورے حق) کو ادا کیا (اس پر) آپﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر اس سے لوگوں کی طرف ا    شارہ کیا اور تین دفعہ فرمایا اے اللہ آپ گواہ رہئے اے اللہ آپ گواہ رہئے ۔۔۔آپ  ﷺخطبہ سے فارغ ہوئے اور حضرت بلال ؓنے ظہر کی اذان دی۔ ظہر اور عصر دونوں نمازیں ایک ہی وقت میں ادا کی گئیں۔

صحيح  البخاری (رقم الحديث  : 1654) میں ہے :

عن أبي بكرة رضي الله عنه قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر …. قال: أليست بالبلدة الحرام  قلنا: بلى«قال: (فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقون ربكم، ‌ألا هل بلغت). قالوا: نعم، قال: (اللهم اشهد، فليبلغ ‌الشاهد ‌الغائب، فرب مبلغ أوعى من سامع…..

ترجمہ :حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں  یوم النحر (دس  ذو الحجہ) کو خطبہ دیا ۔۔۔۔ آپ ﷺنے ہم سے پوچھا کہ کیا یہ  حرمت والا شہر  نہیں ہے ! ہم نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ تمہارے خون اور تمہارے اموال (آپس میں ) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں ہے(یہ حرمت) تمہارے رب سے جس  دن ملاقات ہوگی اس دن تک ہے ( یعنی قیامت تک) کیا میں نے تم تک اپنی بات پہنچادی ؟صحابہ ؓ نے ( بیک آواز) عرض کیا : جی (پہنچادی ) تو اس جواب پر آپ ﷺ نے فرمایا : یا للہ تو گواہ رہنا ۔  تم میں سے جو  موجو ہیں  وہ  ان لوگوں تک ( میری بات ) پہنچادے جو یہاں موجود نہیں ہیں۔کبھی خود سننے ولے سے زیادہ  وہ شخص بات کو  زیادہ محفوظ  کرلیتا  ہے جس تک بات پہنچائی جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved