- فتوی نمبر: 29-392
- تاریخ: 23 ستمبر 2023
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
یہ جو دنیا میں سزائیں ہیں کسی کے قتل کی جیسے سزائے موت یا آج کل عمر قید کی سزا جو کم بھی کر دی جاتی ہے چند سال بعد ضمانت وغیرہ ہوجاتی ہےان سب کے بعد کیا قاتل سے آخرت میں مواخذہ ختم ہوجاتا ہے ؟ کیا یہ دنیاوی سزامعافی کے لئے کافی ہے ؟راہنمائی فرمائیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کسی جرم پر دنیا میں دی جانے والی سزاؤں سے گناہ اور آخرت کا مواخذہ ختم نہیں ہوتا بلکہ گناہ کی معافی اور آخرت کے مواخذہ سے بچنے کے لیے اس گناہ سے سچی توبہ کرنا ضروری ہے۔
الدر المختار مع ردالمحتار (6/5) میں ہے:
(الحد) لغة: المنع وشرعا: (عقوبة مقدرة وجبت حقا لله تعالى)زجرا …………. وليس مطهرا عندنا، بل المطهر التوبة
(قوله زجرا) بيان لحكمها الأصلي، وهو الانزجار عما يتضرر به العباد من أنواع الفساد
(قوله بل المطهر التوبة) فإذا حد ولم يتب يبقى عليه إثم المعصية
ہدایہ(2/263) ميں ہے:
الحد لغة هو المنع والمقصد الأصلي من شرعه الانزجار عما يتضرر به العباد. والطهارة عن الذنوب ليست أصلية بل المطهر التوبة فيه، بدليل شرعيته في حق الكافر
قوله والطهارة ليست أصلية فيه لأنها تحصل بالتوبة لا باقامة الحد اذا الحد يقام على كره منه فلا يكون محصلا للثواب فلا تحصل به الطهرة فان تاب كان الحد طهرة له والالا يكون طهرة بل يكون خزيا ونكالا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved