استفتاء
امتی عمل میں نبیﷺ کےبرابر بلکہ بڑھ جاتے ہیں بانی دیوبند نانوتوی
اورفاعل اورصدیقین کو مجمع العلوم اورقابل خیال فرمائیے دلیل اس دعوے کی یہ ہے کہ انبیاء اپنی امۃ سے ممتاز ہوتے ہیں تو علوم میں ہی ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسااوقات بظاہر امتی مساوی ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں اوراگرقوت عملی اورہمت میں انبیاء امتیوں سے زیادہ بھی ہوں تو یہ معنی ہوئے کہ مقام شہادت اوروصف شہادت بھی ان کو حاصل ہے مگر کوئی ملقب ہوتا ہے تو اپنے اوصاف غالبہ کے ساتھ ملقب ہوتا ہے۔ مرزاجان جاناں صاحبؒ اورغلام علی صاحب اورشاہ ولی اللہ صاحبؒ اورشاہ عبدالعزیز صاحب ؒ چاروں صاحب جامع بین الفقر والعلم تھے پر مرزاصاحبؒ اور شاہ غلام علی صاحبؒ تو فقیری میں مشہور ہوئے اورشاہ ولی اللہ صاحب ؒ اور شاہ عبدالعزیز صاحب علم میں ،وجہ اس کی یہی ہوئی کہ ان کےعلم پر ان کی فقیری غالب تھی اور ان کی فقیری پر ان کا علم اگرچہ ان کے علم سے ان کا علم یا ان کی فقیری سے ان کی قفیری کم نہ ہوسو انبیاء میں علم عمل سے غالب ہوتا ہے اگرچہ ان کا عمل اور ہمت اورقوت اوروں کے عمل ،قوت اورہمت سے غالب ہو بہرحال علم میں انبیاء اوروں سے ممتاز ہوتے ہیں اورمصداق نبوت وہ کمال علمی ہی ہے جیسا کہ مصداق صدیقیت بھی و ہ کمال علمی ہے ۔
اس عبارت کا مقصد ومفہوم کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ عبارت میں قابل اشکال عبارت یہ ہے ’’باقی رہا عمل ،اس میں بسااوقات بظاہر امتی مساوی ہوجاتے ہیں بلکہ بڑھ جاتے ہیں‘‘اس عبارت پر تھوڑا سا بھی غور کریں تو اس میں اشکال کی کوئی بات نہیں ،کیونکہ اس عبارت میں امتی کے عمل میں نبی ﷺ کے مساوی یا بڑھ جانے کی بات ہے ۔یہ بڑھ جانا مقدار (Quantity)کے اعتبار سے ہےمعیار یا حیثیت (Quality OR Value)کے اعتبار نہیں ،مثلا آپ ﷺ نے صرف ایک حج کیا ہے جبکہ کتنے امتی ایسے ہیں جنہوں نے کئی کئی حج کیے ہیں لیکن یہ مساوی ہونا یا بڑھ جانا صرف ظاہری اور مقدار کے لحاظ ہے جیسا کہ مذکورہ عبارت میں لفظ’’بظاہر‘‘سے صاف واضح ہے جبکہ حقیقت اورمعیارکےاعتبار سے ایک امتی تو کیا سارے امتیوں کےزندگی بھرکے اعمال آپ ﷺکے ایک سجدہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتے ۔جیسے لوہا ٹنوں منوں میں بھی ہو تو سونے کی تھوڑی سی مقدار یا ہیرے کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔کسی نے کہا ہے :ع
سونے کا ایک ذرہ لوہے کے من پہ بھاری عارف کا ایک سجدہ زاہد کی عمر ساری
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپﷺ نے ابتدائی دور کے صحابہ ؓ کے صدقے کےبارے میں فرمایا کہ
لو انفق احدکم مثل احد ذهبا مابلغ مداحدهم ولا نصيفه
’’تم پہاڑوں کےبرابر بھی سونا صدقہ کرو تو ابتدائی صحابہؓ کےمٹھی بھرغلہ صدقہ کرنے کے برابر نہیں ہوسکتے ‘‘(ابوداود:2/296)
حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ظاہری صورت میں پہاڑ کے برابر سونا تو کیا ایک رتی برابر سونا بھی مٹھی بھرغلبہ سے زیادہ ہے لیکن حقیقت اوراجروثواب کےلحاظ سے مٹھی بھر صدقہ پہاڑ کےبرابرسونے سے زائد ہے۔
پھر بھی کوئی بات قابل اشکال ہوتو دوربارہ رابطہ کرسکتے ہیں