- فتوی نمبر: 34-99
- تاریخ: 20 اکتوبر 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اصول دین
استفتاء
حافظ زید نے تلاوتاً قرآن مجید ختم کیا اور تلاوت کردہ قرآن مجید کا ثواب مرحومین وغیرہ کو بخش دیا۔ ازیں بعد خالد صاحب آئے اور حافظ زید سے کہا کہ اگر آپ کے پاس تلاوت کیا ہوا قرآن کریم کا ختم ہو تو وہ مجھے دیدو میں نے بزرگوں کو ایصالِ ثواب کرنا ہے۔
اس پر حافظ زید نے کہا کہ میرے پاس ایک ہی قرآن پاک ختم تھا جو میں مرحومین کو ایصال ثواب کرچکا ہوں وہی لے لو۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایصال ِ ثواب کیا ہوا ختم قرآن کسی کو دوبارہ ایصال ثوب کے لیے دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اس بارے میں اہل علم کی تین قسم کی آرا ہیں۔
1۔ایک رائے یہ ہے کہ ایصال ثواب کے بعد ایصال ثواب کرنے والے کے پاس نہ تو خود اس عمل کا ثواب رہتا ہے جس عمل کا ايصال ثواب کیا گیا ہے اور نہ ہی اسے اس ايصال ثواب کے عمل پر کوئی ثواب ملتا ہے گویا ان کے نزدیک ایصال ثواب کا عمل کسی حسی چیز کے ہدیہ کرنے کے بمنزلہ ہے اور جس طرح کسی حسی چیز کا ہدیہ کرنے والے کے پاس وہ چیز باقی نہیں رہتی اور اس ہدیہ کرنے کے عمل پر کوئی ثواب نہیں ملتا اسی طرح ایصال ثواب کرنے کے بعد نہ تو خود اس عمل کا ثواب باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس عمل پر اسے کوئی ثواب ملتا ہے۔ دیکھیئےحوالہ نمبر(1تا7)۔
اس رائے کے مطابق جس عمل کا ایک دفعہ ایصال ثواب کر دیا گیا ہو اس کا دوبارہ ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا۔
2۔دوسری رائے یہ ہے کہ جس عمل کا ایصال ثواب کیا گیا ہو اس عمل کا ثواب تو ایصال ثواب کرنے والے کے پاس باقی نہیں رہتا البتہ یہ ایصال ثواب بھی ایک عمل ہے اس لیے اس ایصال ثواب کے عمل کا ثواب باقی رہتا ہے اس رائے کی بنا بھی بظاہر اس پر ہے کہ ایصال ثواب حسی چیز کے ہدیہ کرنے کے بمنزلہ ہے تاہم ان کی رائے میں حسی چیز کے ہدیہ کرنے پر بھی کچھ نہ کچھ ثواب ملتا ہے اس لیے ان کی رائے میں اسے ایصال ثواب کرنے کے عمل کا ثواب ملے گا دیکھیئے حوالہ نمبر(8تا14)۔
اس رائے کے مطابق کسی عمل کا ایصال ثواب کرنے کے بعد اس عمل کا تو ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا جس کا ایک دفعہ ایصال ثواب کیا جا چکا ہے البتہ اس ایصال ثواب کے عمل پر ملنے والے ثواب کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے۔
3۔تیسری رائے یہ ہے کہ ایصال ثواب کرنے والے کے پاس بھی اس عمل کا ثواب باقی رہتا ہے جس عمل کا ایصال ثواب کیا گیا ہو اور اس رائے کی بنیاد وہ حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایصال ثواب کرنےسے ایصال ثواب کرنے والے کے عمل کا اجر کم نہیں ہوتا یعنی ایصال ثواب کرنے سے اس عمل کا ثواب اسے بھی مل جاتا ہے جسے ایصال ثواب کیا گیا ہو اور اس کے پاس بھی باقی رہتا ہے جس نے ایصال ثواب کیا ہو ۔دیکھیئے حوالہ نمبر (15تا21)۔
اس رائے کے مطابق کسی عمل کا ایصال ثواب کرنے کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بھی اسی عمل کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے ۔یہ رائے چونکہ موید بالحدیث ہے اس لیے ہماری رائے میں یہی راجح ہے۔
1۔ كتاب الروح ،لابن القيم (2/ 391)ميں ہے:
وأما قولكم: لو ساغ الإهداء لساغ إهداء ثواب الواجبات التي تجب على الحي.
فالجواب: أن هذا الإلزام محال على أصل من شرط في الوصول نية الفعل عن الميت، فإن الواجب لا يصح أن يفعله عن الغير، فإن هذا واجب على الفاعل يجب عليه أن ينوي به القربة إلى الله.
وأما من لم يشترط نية الفعل عن الغير، فهل يسوغ عنده أن يجعل للميت ثواب فرض من فروضه؟
فيه وجهان. قال أبو عبد الله بن حمدان: وقيل: إن جعل له ثواب فرض من صلاة أو صوم أو غيرهما جاز وأجزأ فاعله.
قلت: وقد نقل عن جماعة أنهم جعلوا ثواب أعمالهم من فرض ونفل للمسلمين، وقالوا: نلقى الله بالفقر والإفلاس المجرد! والشريعة لا تمنع من ذلك، فالأجر ملك العامل فإن شاء أن يجعله لغيره، فلا حجر عليه في ذلك. والله أعلم.
2۔منحۃ الخالق على البحر الرائق(3/106)میں ہے:
الثواب للعامل فاذا تبرع به واهداه الى غيره كان بمنزلة ما يهديه اليه من ماله
3۔البحر الرائق (3/ 107)میں ہے:
وظاهر إطلاقهم يقتضي أنه لا فرق بين الفرض والنفل فإذا صلى فريضة وجعل ثوابها لغيره فإنه يصح لكن لا يعود الفرض في ذمته؛ لأن عدم الثواب لا يستلزم عدم السقوط عن ذمته، ولم أر منقولا
4۔ كتاب الروح ،لابن القيم (2/ 391 )ميں ہے:
وأما قولكم: لو ساغ ذلك لساغ إهداء نصف الثواب وربعه إلى الميت، فالجواب من وجهين:أحدهما: منع الملازمة، فإنكم لم تذكروا عليها دليلا إلا مجرد الدعوى.الثاني: التزام ذلك والقول به، نص عليه الإمام أحمد في رواية محمد بن يحيى الكحال. ووجه هذا أن الثواب ملك له، فله أن يهديه جميعه، وله أن يهدي بعضه. يوضحه: أنه لو أهداه إلى أربعة مثلا يحصل لكل منهم ربعه، فإذا أهدى الربع وأبقى لنفسه الباقي جاز، كما لو أهداه إلى غيره
5۔ الموافقات للشاطبی(2/ 402) میں ہے:
وللمجيز أن يستدل أيضا من وجهين:
أحدهما:أن أدلته من الشرع هي الأدلة على جواز الهبة في الأموال وتوابعها، إما أن تدخل تحت عمومها أو إطلاقها، وإما بالقياس عليها؛ لأن كل واحد من المال والثواب عوض مقدر، فكما جاز في أحدهما جاز في الآخر، وقد تقدم في الصدقة عن الغير أنها هبة الثواب، لا يصح فيها غير ذلك، فإذا كان كذلك، صح وجود الدليل، فلم يبق للمنع وجه.
والثاني:أن كون الجزاء مع الأعمال كالمسببات مع الأسباب، وكالتوابع مع المتبوعات، يقضي بصحة الملك لهذا العامل، كما يصح في الأمور الدنيوية، وإذا ثبت الملك صح التصرف بالهبة.لا يقال: إن الثواب لا يملك كما يملك المال؛ لأنه إما أن يكون في الدار الآخرة فقط، وهو النعيم الحاصل هنالك والآن لم يملك منه شيئا، وإما أن يملك هنا منه شيئا حسبما اقتضاه قوله تعالى: {من عمل صالحا من ذكر أو أنثى وهو مؤمن فلنحيينه حياة طيبة} الآية [النحل: 97] ، فذلك بمعنى الجزاء في الآخرة، أي أنه ينال في الدنيا طيب عيش من غير كدر مؤثر في طيب عيشه، كما ينال في الآخرة أيضا النعيم الدائم، فليس له أمر يملكه الآن حتى تصح هبته، وإنما ذلك في الأموال التي يصح حوزها وملكها الآن.
لأنا نقول: هو وإن لم يملك نفس الجزاء، فقد كتب له في غالب الظن عند الله تعالى، واستقر له ملكا بالتمليك، وإن لم يحزه الآن، ولا يلزم من الملك الحوز، وإذا صح مثل هذا المال، وصح التصرف فيه بالهبة وغيرها، صح فيما نحن فيه، فقد يقول القائل، ما ورثته من فلان فقد وهبته لفلان، ويقول: إن اشترى لي وكيلي عبدا، فهو حر أو هبة لأخي، وما أشبه ذلك، وإن لم يحصل شيء من ذلك في حوزه، وكما يصح هذا التصرف فيما بيد الوكيل فعله وإن لم يعلم به الموكل، فضلا عن أن يحوزه من يد الوكيل، يصح أيضا التصرف بمثله فيما هو بيد الله الذي هو على كل شيء وكيل، فقد وضح إذا مغزى النظر في هبة الثواب، والله الموفق للصواب.
6۔المبسوط للسرخسي (12/ 81) میں ہے:
الفرق بين الصدقة والهبة: في مقصود العوض. ففي الصدقة، المقصود: الثواب – دون العوض – وفي الهبة، المقصود: العوض. فأما في إخراج العين عن ملكه، وتمليك القابض بطريق التبرع: لا فرق بينهما.
7۔ عمدۃ القاری (9/ 90) میں ہے:
قال الكرماني: والفرق بين الصدقة والهبة أن الصدقة هبة لثواب الآخرة، والهدية هبة تنقل إلى المتهب إكراما له قلت: الصدقة قد تكون هبة، والهبة قد تكون صدقة، وإن الصدقة على الغني هبة، والهبة للفقير صدقة
8۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند( 5 / 297 ) میں ہے:
سوال: زید نے قرآن شریف پڑھا اور عمرو کے نام سے ایصال ثواب کر دیا اب زید کو اس پڑھنےکا کس قدر ثواب ملے گا ؟
جواب :قرآن شریف کا ثواب تو عمرو کو ملے گا باقی اس وجہ سے کہ زید نے ایک کام کیا اس کو اس کا بدلہ دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ مل سکتا ہے اخلاص شرط ہے بدوں اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ الا لله الدین الخالص من جاء بالحسنة فله عشر امثالها
9۔ فتاوی دار العلوم دیوبند(284/5)میں ہے
سوال: اگر ثواب کلام مجیدیا طعام یا کسوت ایک وقت میں ایک شخص کو پہنچا دے پھر دوسرے وقت دوسری میت کو اور تیسرے وقت تیسری میت کو پہنچا دے تو یہ ثواب تینوں میتوں کو پہنچے گا یا میت اول کو پہنچ کر منقطع ہوجاوے گا ، ثانی اور ثالث کو کچھ نہ ملے گا۔
جواب: ایک وقت میں اگر چند اموات کو ثواب پہنچادے تو سب کو پہنچتا ہے لیکن اگر اول وہ ثواب ایک میت کو پہنچا دیا تو پھر دوسرے وقت میں اسی صدقہ و کلام مجید کا ثواب دوسری میت کو نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وہ ثواب اول میت کو پہنچ گیا ۔فقط۔
10۔ شرح الوقایہ (226/5) میں ہے:
ثم التصدق على الغني قد يكون قربة استحق بها الثواب، لكونه غنياً يملك نصاباً وله عيال كثيرة، والناس يتصدقون على مثل هذا لنيل الثواب.
11۔ البحر الرائق میں (202/5) ہے:
وصرح في الذخيرة بأن في التصدق على الغني نوع قربة دون قربة الفقير.
12۔ فتاوی رشید یہ (ص157)میں ہے:
سوال: اپنے بزرگوں کی ارواح کو ایصال ثواب منظور ہے کوئی شئے اپنے یار و احباب اغنیاء کو کھلا کر ایصال ثواب کر سکتا ہے یا نہیں ؟ اور اغنیاء ایسی شئے کے کھانے سے خطا وار تو نہیں ہونگے ؟
جواب: غنی کو ایسا طعام صدقہ نفل کا مکروہ تنزیہ ہے اور ثواب پہنچتا ہے مگر فقیر کے کھانے سے کم۔
13۔امداد الفتاوی (2/112)میں ہے:
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نفل صدقہ غنی کے لیے بھی جائز ہے۔ خواہ وہ حکم ہبہ ہو یا صدقہ اور اس میں ثواب بھی ہے گو فقیر کو دینے کے برابر نہ ہو۔
14۔ جدید معاشی مسائل کی اسلامائزیشن کا شرعی جائزہ ڈاکٹر عبد الواحد صاحب ص(198 )میں ہے:
فقراء پر صدقہ قربت مقصودہ ہے جبکہ اغنیاء پر صدقہ اگر قربت بھی ہو تو وہ اس درجہ کی نہیں کہ اس کو آخرت کے اعتبار سے مقصود کہا جا سکے بلکہ عام طور سے امیروں کو دینے کو نیکی سمجھا ہی نہیں جاتا سوائے اس کے کہ ساتھ میں پائی جانے والی اچھی نیت نیکی اور ثواب کا باعث ہوتی ہے۔
15۔شامی (3/ 180) میں ہے :
[تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.
16۔شامی(4/13)میں ہے:
وفي البحر بحث أن إطلاقهم شامل للفريضة لكن لا يعود الفرض في ذمته لأن عدم الثواب لا يستلزم عدم السقوط عن ذمته اهـ. على أن الثواب لا ينعدم كما علمت
17۔امداد الفتاویٰ(1/593،594)میں ہے:
سوال: ایصال ثواب کی نسبت بعض وقت خدشہ گزرتا ہے کہ اگرعمل نیک کا ثواب دوسروں کی روح کوبخشا جاوے تو بخشنے والے کیلئے کیانفع ہوا؛ البتہ مردوں کو اس سے نفع پہنچتا ہے حضور اس خدشہ کو رفع فرماویں تو فدوی کو اطمینان ہوجاوے گا؟
الجواب : في شرح الصدور: بتخریج الطبرانی عن أبی عمرو قال: قال رسول اللهﷺ إذا تصدق أحدکم صدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبويه فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجرہ شیئاً۔یہ حدیث نص ہے اس میں کہ ثواب بخشدینے سے بھی عامل کے پاس پورا ثواب رہتا ہے اورصحیح مسلم کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔من سن سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من غیر أن ینقص من أجره شیئا أو کما قال۔وجہ تائید ظاہر ہے کہ دوسرے شخص کی طرف تعدیہ ثواب سے بھی عامل کا ثواب کم نہیں ہوتا اتنا فرق ہے کہ حدیث طبرانی میں تعدیہ بالقصد ہے اورحدیث مسلم میں بلاقصد سویہ فرق حکم مقصود میں کچھ مؤثرنہیں اورفقہاء نے بھی ان روایات کے مدلول کو بلا تاویل متلقی بالقبول کیا ہے۔
کما في رد المحتار: عن زکاة التاتارخانية عن المحیط الافضل لمن یتصدق نفلا أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لأنها تصل اليهم ولاینقص من أجره ۔ اور راز اس میں احقرکے ذوق میں یہ ہے کہ معانی میں توسع اس قدر ہے کہ تعدیہ الی المحل الآخر سے بھی محل اول سے زوال نہیں ہوتا۔ چنانچہ تعدیہ علوم وفیوض میں مشاہد ہے بخلاف اعیان کے کہ وہاں ایسا نہیں بلکہ ہبہ کرنے کے بعد شے موہوب واہب کے پاس نہیں رہتی۔ وذکرالعارف الروحی في المثنوی بعض آثار التوسع المعنوی فقال: درمعانی قسمت واعداد نیست درمعانی تجزیہ وافراد نیست
18۔فتاوی رحیمیہ(7/199)میں ہے:
سوال :ایک شخص روزانہ قرآن مجید پارہ دو پارے پڑھتا ہے اس کا نصف ثواب اپنے مرحوم والدین کو بخشتا ہے اورنصف ثواب تمام مؤمن و مسلمان مردوں کی ارواح کو بخشتا ہے تو اس طرح پڑھنے کا سارا ثواب بخش دینے کی وجہ سے پڑھنے والے کو ثواب ملے گا یا نہیں ؟ اس لئے کہ پورا ثواب مردوں کو بانٹ دیا ہے تو پڑھنے والے کو کیا ملے گا۔
الجواب: قرآن شریف وغیرہ پڑھ کر ایصال ثواب کرنے والے کو بھی پڑھنے کا اور ایصال ثواب کرنے کا ثواب ملتا ہے ، پڑھ کر یا صدقہ و خیرات کر کے بخشنے والا ثواب سے محروم نہیں رہتا۔
19۔احسن الفتاویٰ(8/169)میں ہے:
ایصال ثواب کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لسانی و جسمانی عبادات میں سے ہر شخص اپنے گھر میں انفرادی طور پر جو نیک عمل اپنے لیے کرتا ہے،نفل نماز پڑھتا ہے،نفل روزے رکھتا ہے، تسبیحات پڑھتا ہے، تلاوت کرتا ہے، نفل حج یا عمرہ کرتا ہے، طواف کرتا ہے، اس میں صرف یہ نیت کرلے کہ اس کا ثواب ہمارے فلاں عزیز یا دوست کو پہنچے وہ پہنچ جائے گا اور بس یہی ایصال ثواب ہے، وہ ثواب جو آپ کو ملنا تھا، آپ کو بھی ملے گا اور جن د وسرے لوگوں کی نیت کی ہے ان سب کو بھی پورا ثواب ملے گا۔
20۔فتاویٰ محمودیہ(9/276) میں ہے:
سوال: زید روزانہ تلاوت کلام اللہ کے بعد اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور کل مؤمنین و مؤمنات مسلمین و مسلمات کو ثواب بخش دے تو کیا زید کو تلاوت کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
الجواب:اس کو بھی ثواب ملے گا وہ ہرگز محروم نہیں رہے گا۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
21۔فتاویٰ عثمانی(1/588)میں ہے:
سوال : جو لوگ گھروں پر قرآن خوانی کرا تے ہیں ان کو قرآن کا ثواب ملے گا یا نہیں پھر اس مردے کے لیے جس کے لیے قرآن خوانی کرائی ہے اسے ثواب ملے گا یا نہیں؟۔۔۔
جواب:نفلی عبادات خواہ وہ تلاوت قرآن ہو یا نفلی نماز ہو یا صدقہ ہو اس کا ثواب مردے کو پہنچایا جاسکتا ہے اور اس کو ثواب پہنچتا بھی ہے اور خود ایصال ثواب کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved