• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

کسی بات کو حدیث کہہ کر بیان کرنے کا معیار

استفتاء

محترم ومکرم مفتی صاحب

اللہ تعالی آنجناب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے وقت نکال کر بندہ کی راہنمائی کی بھرپور کوشش کی۔

آنجناب نے یہ  (جب کوئی حدیث کسی معتبر کتاب میں موجود ہو، اگرچہ بغیر سند ہی کے ہو،  اور اس کو بیان بھی ترغیب و ترہیب میں کیا جا رہا ہو، اور وہ حدیث قواعد شرعیہ کے معارض بھی نہ ہو، بلکہ "من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر” و غیرہ احادیث سے اس کے مضمون کی تائید بھی ہوتی ہو۔  اور اس کو بیان کرنے والا بھی اپنے وقت کا محدث، حدیث و اصول حدیث پر گہری نظر رکھنے والا ہو۔) ذکر کیا ہے ۔

اس بارے میں قابل غور بات یہ ہے کہ

یہ تمام امور تو اس وقت کے ہیں جب کسی بات کا حدیث ہونا متعین ہو جائے، جب کہ محدثین کی تصریحات کے مطابق کسی بات کے حدیثِ رسول ہونے کا معیار ’’سند ‘‘ہے۔

بالفاظ دیگر ! بیان کرنے میں جو وسعت ہے وہ تو احادیث کے بیان یا عدم بیان میں ہے، لیکن جس سند کی بنیاد پرکسی بات کے حدیث ہونے یا نہ ہونے کافیصلہ کیا جائے گا، جب تک وہ سند ہی نہ ملے تو اس بات کو حدیث ِ رسول کہہ کر بیان کرنا کیسے درست ہو گا؟

میرا مقصود تو یہ ہے کہ

جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق کسی بات کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ اس کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہےیا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔

آنجناب نے مذکورہ جواب میں جو کچھ تحریر فرمایا، (حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ کی محدثانہ شان، کتاب کا معتبر ہونا، مضمون حدیث کی تائید میں دوسری حدیث کا ہونا وغیرہ وغیرہ) اس سے حاشا وکلا انکار نہیں ہے۔

علاوہ ازیں! حضرت شیخ الحدیث صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنے پاس موجود کتب میں نہ ملنے کی تصریح کی ہے،  پھر اس پر مستزاد یہ کہ موجودہ دور میں میسر تلاش ِ حدیث کے وسائل جدیدہ کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی کسی بات کی سند نہ مل سکے تو بظاہر یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’’جب تک اس بات کی جناب رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کی کوئی معتبر سند نہ مل جائےتب تک اسے حدیثِ رسول کہنے سے اجتناب کیا جائے‘‘۔

ہاں اس مضمون کی دیگر احادیث جو معتبر سند سے ثابت ہیں ان کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔وہ بیان کی جائیں نہ کہ یہ۔

نیز! اکابرین کا کسی بھی کتاب کے بارے میں تعریفی کلمات کہنے کا مطلب ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ وہ کتاب مجموعی اعتبار سے معتبر ومستند ہے، لیکن اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ اس میں موجود تمام روایات از روئے اسناد قابل اعتبار واحتجاج بھی ہیں۔

پھر حضرت شاہ صاحب قدس سرہ نے تو اس کتاب کوپسند کیا ہے ، فنی اعتبار سے اس کی روایات کے بارے میں صراحۃ تو کوئی کلام نہیں کیا، جس سے متبادر یہی ہے کہ افادیت اور نفع تام کے اعتبار سے یہ کتاب بہت مفید ہے اور کتاب کا مواعظ کے موضوع پر ہونا بھی اسی معنی ومفہوم کی تائید کرتا ہے۔

واضح رہے کہ بندہ کا اس تحریر سے مقصود قطعا اشکال برائے اشکال نہیں ہے بلکہ اس بارے میں محض اپنی ذہنی خلش کو دور کرناہے ، اس لیے امید ہے کہ آنجناب اس بارے میں اچھی طرح غور کر کے جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

چند باتيں پیشِ خدمت ہیں۔ امید ہے کہ غور فرمائیں گے۔

1۔ آپ کی حالیہ تحریر کا خلاصہ میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کا خیال یہ ہے کہ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ ایسی حدیث کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہو، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہو۔

چنانچہ آپ کی حالیہ تحریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:

i۔ محدثین کی تصریحات کے مطابق کسی بات کے حدیثِ رسول ہونے کا معیار "سند” ہے۔

ii۔ جب تک کسی حدیث کی معتبر سند نہ مل جائے، اس وقت تک اس حدیث کو حدیث کہہ کر یعنی جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔

iii۔ چنانچہ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق کسی بات کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ اس کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہے، یا یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔

1۔ ان تین اقتباسات کے بارے میں گذارش ہے کہ اگر آپ کے سامنے ان کے کچھ حوالہ جات ہوں تو وہ ذکر کر دیجیے، تاکہ ان عبارات کے سیاق و سباق کو دیکھ کر ان کے معنیٰ و مفہوم کو سمجھنا ہمارے لیے سہل ہو۔

2۔و في شرح شرح النخبة: الحديث ما أضيف إلی رسول الله صلی الله عليه و سلم قولا أو فعلا أو تقريراً أو صفةً. (بحواله: كشاف اصطلاحات الفنون: 1/ 380)

حدیث  کی اس تعریف میں سند کا تذکرہ نہیں۔

3۔ مرسل کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

و إن كان السقوط من آخر السند فإن كان بعد التابعي فالحديث مرسل … و حكم المرسل التوقف عند جمهور العلماء لأنه لا يدری أن الساقط ثقة أو لا، لأن التابعي قد يروي عن التابعي و في التابعين ثقات و غير ثقات.

اتنی عبارت سے معلوم ہوا کہ مرسل میں سند مذکور نہیں ہوتی، اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ درمیان کا راوی ثقہ ہے یا غیر ثقہ۔

اس کے باوجود اسی عبارت کے "فالحدیث مرسل” کے جملے میں مرسل پر حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اطلاق حدیث کے لیے سند شرط نہیں۔

پھر آگے لکھتے ہیں:

و عند أبي حنيفة و مالك المرسل مقبول مطلقاً و هم يقولون إنما أرسله لكمال الوثوق و الاعتماد، لأن الكلام في الثقة، و لو لم يكن عنده صحيحاً لم يرسله و لم يقل قال رسول الله صلی الله عليه و سلم.

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک ارسال کرنے والا اگر ثقہ ہو تو مرسل حدیث حجت بھی ہے۔ اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ارسال کرنے والا شخص معتبر اور معتمد علیہ ہے۔

اس سے آپ کے اس جملے کی تردید ہوتی ہے کہ "کسی بات کو بنی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ اس کو کسی بڑے شیخ یا محدث نے بیان کیا ہے”۔

5۔ حدیثِ معلق اور امام بخاری رحمہ اللہ کی تعلیقات کے بارے میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:

و السقوط إما أن يكون من أول السند و يسمی معلقاً و هذا الاسقاط تعليقاً و الساقط قد يكون واحداً و قد يكون أكثر و قد يحذف تمام السند كما هو عادة المصنفين يقولون قال رسول الله صلی الله عليه و سلم.

و التعليقات كثيرة في تراجم صحيح البخاري و لها حكم الاتصال لأنه التزم في هذا الكتاب أن لا يأتي إلا بالصحيح و لكنها ليست في مرتبة مسانيده إلا ما ذكر منها مسنداً في موضع آخر من كتابه.

و قد يفرق فيها بأن ما ذكر بصيغة الجزم و المعلوم كقوله قال فلان أو ذكر فلان دل علی ثبوت اسناده عنده فهو صحيح قطعاً و ما ذكره بصيغة التمريض و المجهول كقيل و يقال و ذكر، ففي صحته عنده كلام، و لكنه لما أورده في هذا الكتاب كان له أصل ثابت.

اس عبارت میں خط کشیدہ عبارت سے معلوم ہوا کہ کسی بات کے حدیث رسول ہونے کے لیے سند کا ہونا ضروری نہیں۔ کسی معتبر کتاب میں اس بات کی نسبت آپ ﷺ کی طرف ہونا بھی اس بات کے حدیث رسول ہونے کے لیے کافی ہے۔ اور یہ بات آپ کے مندرجہ ذیل جملے کے خلاف ہے:

"کسی بات کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ ۔۔۔ یہ کسی معتبر کتاب میں موجود ہے۔”

© Copyright 2024, All Rights Reserved