- فتوی نمبر: 29-366
- تاریخ: 03 نومبر 2023
استفتاء
1۔کسی کو اپنے عزت کے لیے کھڑا کرنا
2۔کسی کی عزت واحترام میں خود کھڑا ہونا شرعی حکم کیا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے کہ: آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے ساری تفصیل بیان کریں۔
جواب وضاحت: ایک ویڈیو بنوائی گئی ہے جس میں ایک استاد کلاس میں داخل ہوتا ہے توسارے اسٹوڈنٹ کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ایک اسٹوڈنٹ کھڑا نہیں ہوتا ہے استاد کے پوچھنے پر کہ آپ کیوں کھڑے نہیں ہوئے تو وہ جواب دیتا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ آپ جہنم میں جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک حدیث مبارکہ بیان کرتا ہے جس میں اپنے لیے اٹھنے والوں کے لیے عذاب کا ذکر ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حدیث میں جس قیام پر جہنم کی وعید ہے اس سے مراد وہ قیام ہے جس میں آدمی بت کی طرح مستقل کھڑارہے اور جو قیام وقتی ہو وہ مراد نہیں اور وقتی قیام سے مراد وہ قیام ہے جو کسی قابل احترام شخصیت کے آنے پر کیا جائے اور اس قابل احترام شخصیت کے بیٹھ جانے کے بعد احترام میں کھڑے ہونے والے افراد بھی بیٹھ جائیں مسلسل کھڑے نہ رہیں ،لہذا اس نہ کھڑے ہونے والااسٹوڈنٹ (طالب علم) کا مذکورہ حدیث کو سوال میں ذکر کردہ صورت پر چسپاں کرنا درست نہیں، نیز استاد کا یہ پوچھنا کہ آپ کیوں کھڑے نہیں ہوے اس بات کے دلیل نہیں کہ یہ استاد اپنے لئے کھڑے ہونے کو پسند کرتا ہے ،بلکہ یہ پوچھنا ا سٹوڈنٹ (طالب علم) کی اچھی تربیت کیلئے بھی ہوسکتا ہے کہ طلباء کو چاہئے کہ وہ کسی بھی قابل احترام شخصیت کے احترام میں کھڑے ہو جایا کریں۔
سنن ترمذی (3/1083)میں ہے:
عن أبي مجلز، قال: خرج معاوية، فقام عبد الله بن الزبير وابن صفوان حين رأوه. فقال: اجلسا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من سره أن يتمثل له الرجال قياما فليتبوأ مقعده من النار» وفي الباب عن أبي أمامة: «هذا حديث حسن» حدثنا هناد قال: حدثنا أبو أسامة، عن حبيب بن الشهيد، عن أبي مجلز، عن معاوية، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری (22/251) میں ہے:
وعن أبي الوليد بن رشد: أن القيام على أربعة أوجه: الأول: محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبرا وتعاظما على القائمين إليه. والثاني: مكروه وهو أن يقع لمن لا يتكبر ولا يتعاظم على القائمين، ولكن يخشى أن يدخل نفسه بسبب ذلك ما يحذر، ولما فيه من التشبه بالجبابرة والثالث: جائز وهو أن يقع على سبيل البر والإكرام لمن لا يريد ذلك، ويؤمن معه التشبه بالجبابرة. والرابع: مندوب وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه ليسلم عليه أو إلى من تجددت له نعمة فيهنيه بحصولها. أو مصيبة فيعزيه بسببها
بذل المجہود (13/602) میں ہے:
والصحيح أن احترام أهل الفضل من أهل العلم والصلاح والشرف بالقيام جائز، وفي “مطالب المؤمنين”: لا يكره قيام الجالس لمن دخل تعظيما، والقيام ليس مكروها لعينه، وإنما المكروه محبة القيام لمن الذي يقام له، وما جاء من كراهته – صلى الله عليه وسلم – قيام الصحابة له فهو من جهة الاتحاد الموجب لرفع التكلف لا للنهي.
وقال النووي:القيام للقادم من أهل الفضل مستحب، وقد جاءت فيه أحاديث، ولم يصح في النهي عنه شيء تصريحا، فعلم أن القيام المذكور مما تكلم فيه العلماء ليس كما يقال: إنه بدعة لم يكن في زمنه – صلى الله عليه وسلم -، نعم لم يكن متعارفا فيه كما في هذا الزمان، بل كانوا غير متكلفين في أحد الجانبين، بل الظاهر أن الغالب عدم القيام، وأما إنه بدعة مطلقا فكلا، انتهى ملخصا
لمعا ت التنقيح في شرح مشكاة المصابيح (55\8) میں ہے:
والصحيح أن احترام أهل الفضل من أهل العلم والصلاح والشرف بالقيام جائز، وفي (مطالب المؤمنين): لا يكره قيام الجالس من دخل عليه تعظيمًا، والقيام ليس بمكروه لعينه، وإنما المكروه محبة القيام من الذي يقام له؛ فإن لم يحب القيام وقام لا يكره، كذا في (القنية)، وسيجيء في الحديث: (من سره أن يتمثل له الرجال قيامًا فليتبوأ مقعده من النار)، قالوا: هذا إذا طلب من أحد، أما لو لم يطلب ولم يتوقع أن يقوم له أحد ووقف أحد من تلقاء نفسه طلبًا للثواب فلم يكن عليه بأس، ويستحب للرجل أن يكرم أهل الفضل من غير إفراط.
حاشیہ ابن عابدین (9/633) میں ہے:
وفي الوهبانية: يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم كما يجوز القيام، ولو للقارئ بين يدي العالم
(قوله يجوز بل يندب القيام تعظيما للقادم إلخ) أي إن كان ممن يستحق التعظيم قال في القنية: قيام الجالس في المسجد لمن دخل عليه تعظيما، وقيام قارئ القرآن لمن يجيء تعظيما لا يكره إذا كان ممن يستحق التعظيم، وفي مشكل الآثار القيام لغيره ليس بمكروه لعينه إنما المكروه محبة القيام لمن يقام له، فإن قام لمن لا يقام له لا يكره. قال ابن وهبان أقول: وفي عصرنا ينبغي أن يستحب ذلك أي القيام لما يورث تركه من الحقد والبغضاء والعداوة لا سيما إذا كان في مكان اعتيد فيه القيام، وما ورد من التوعد عليه في حق من يحب القيام بين يديه كما يفعله الترك والأعاجم
آپ کے مسائل اور ان کا حل(159\8) میں ہے:
س… میں نے ایک حدیث پڑھی تھی کہ ایک جگہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ کرام کھڑے ہوگئے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاوٴ،بیٹھ جاوٴ، تعظیم صرف خدا کو زیب دیتی ہے۔ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو ۱-اُستاد جب کلاس میں داخل ہوتا ہے تو اُستاد کو دیکھ کر لڑکے کھڑے ہوجاتے ہیں، ۲-جب کسی آفس میں کوئی افسر داخل ہوتا ہے تو تمام کارکن اس کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ۳-فوجی افسر بھی اپنے آفیسروں کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سلیوٹ مارتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ تمام حرکات دُرست ہیں یا ان کو ختم کردینا چاہئے؟ براہِ کرم تمام مسائل کا جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
الجواب : بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے، مگر بڑے کو دِل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، اس حدیثِ پاک کا یہی محمل ہے۔
فتاویٰ محمودیہ (19/122) میں ہے:
سوال: قیام تعظیمی جائز ہے یا نہیں مثلا یہاں جب حضرت مہتمم صاحب اور حضرت شیخ کے آتے وقت طلباء کھڑے ہوتے ہیں یا کسی اور بزرگ کے آتے وقت کھڑے ہوتے ہیں از روئے شرع یہ قیام جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: اگر حضرت مہتمم صاحب اور حضرت شیخ یا کوئی بزرگ تشریف لائے تو ان کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا تقاضۂ ادب ہے اور مستحب ہے لیکن اگر ان کو اس قیام سے اذیت ہو اور وہ منع کریں تو قیام نہیں کرنا چاہیے اذیت سے بچانا واجب ہے جیسے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان رضی اللہ تعالی عنہم کے پاس حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کو دیکھ کر سب کھڑے ہو گئے اس پر قیام سے منع فرما دیا پھر اس کے بعد تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو ناگواری کا لحاظ رکھتے ہوئے قیام نہیں کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved