- فتوی نمبر: 23-40
- تاریخ: 22 اپریل 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کے پتے سوکھ چکے تھے ، آپ ﷺ نے اس پر اپنا عصا ئے مبارک مارا تو اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے (اور ساتھ والوں نے وہ منظر دیکھا ) پھر آپﷺ نے فرمایا : یہ کلمے " الحمدَ للهِ، وسبحان الله، ولا إله إلاَّ الله، والله أكبر " بندے کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے ۔ (جامع الترمذی ، باب ماجاء فی عقد التسبیح)
اس حدیث مبارک میں تھوڑی کنفیوژن (تردد) ہے ۔ کیا آپﷺ نے یہ حدیث نماز کے بارے میں ارشاد نہیں فرمائی تھی ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کتبِ احادیث میں اس مضمون سے متعلق دومختلف احادیث مبارکہ مروی ہیں ۔ایک حدیث میں مذکورہ کلمات کا ورد کرنے سے گناہوں کے جھڑجانے کا تذکرہ ہےاور یہ حدیث جامع الترمذی ، باب ماجاء فی عقد التسبیح(ج2 ص 82 رقم الحدیث 3486) میں موجود ہے تاہم جس حدیث میں نماز پڑھنے سے گناہوں کے جھڑ جانے کا ذکر آیا ہے وہ اس سےقدرے مختلف ہے۔اس حدیث مبارک کی عبارت اور ترجمہ یہ ہے ۔
مسند احمد (10/218 رقم الحدیث 22594) / المعجم الکبیر للطبرانی (2/70رقم 6028)
أخبرنا علي بن زيد عن أبي عثمان قال كنت مع سلمان الفارسي تحت شجرة وأخذ منها غصنا يابسا فهزه حتى تحات ورقه ثم قال يا أبا عثمان ألا تسألني لم أفعل هذا ؟ قلت ولم تفعله فقال هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا معه تحت شجرة فأخذ منها غصنا يابسا فهزه حتى تحات ورقه فقال : "يا سلمان ألا تسألني لم أفعل هذا ؟ ” فقلت ولم تفعله قال: ” إن المسلم إذا توضأ فأحسن الوضوء ثم صلى الصلوات الخمس تحاتت خطاياه كما يتحات هذا الورق”و قال { وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين }
ترجمہ : ابوعثمانؒ کہتے ہیں کہ: مَیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، اُنھوں نے اُس درخت کی ایک خُشک ٹہنی پکڑ کر اُس کوحرکت دی، جس سے اُس کے پَتے گِر گئے، پھر مجھ سے کہنے لگے کہ: ابوعثمان! تم نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ مَیں نے یہ کیوں کیا؟ مَیں نے کہا: بتادیجیے، کیوں کیا؟اُنھوں نے کہا کہ مَیں ایک دفعہ نبیٔ اکرم ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا، آپ ﷺنے بھی درخت کی ایک خُشک ٹہنی پکڑ کراِسی طرح کیا تھا، جس سے اُس ٹہنی کے پَتَّے جھَڑ گئے تھے، پھر حضورﷺنے ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’سلمان! پوچھتے نہیں کہ مَیں نے اِس طرح کیوں کیا‘‘؟ مَیں نے عرض کیاکہ: بتادیجیے، کیوں کیا؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایاتھا کہ: ’’جب مسلمان اچھی طرح سے وُضو کرتا ہے، پھر پانچوں نمازیں پڑھتا ہے، تو اُس کی خطائیں اُس سے ایسی ہی گِر جاتی ہیں جیسے یہ پَتَّے گِرتے ہیں‘‘پھر رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی آیت ﴿ أقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين﴾تلاوت فرمائی۔ اس آیت کا ترجَمہ یہ ہے کہ: "قائم کر نماز کو دن کے دونوں سِروں میں، اور رات کے کچھ حصوں میں، بے شک نیکیاں دُور کردیتی ہیں گناہوں کو، یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved