• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کوشش کے باوجود قرآن یاد نہ رہنے کا حکم

استفتاء

میری بیٹی کی عمر بارہ سال ہے نابالغ ہے تقریبا ڈیڑھ سال قبل قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا تھا اس کو بہت مشکل لگتاہے   اور ہر کوئی کہتا ہے  کہ یہ منزل بہت مشکل ہے اور لڑکیوں کو گھریلو کام کاج سے فرصت نہیں ملتی اور اس کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے اگر نہ یاد رکھیں تو بہت گناہ ہے میری بیٹی جسمانی طور پر بہت کمزور ہے اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ اگر اس کو یاد نہ رہا تو گناہ ہوگا  ؟کیا وہ قرآن مجید کو حفظ کرنا چھوڑ سکتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قرآن پاک یاد کرکے بھول جانا بڑا گناہ ہے لیکن اس بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ بھول جانے کا مطلب کیا ہے بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حفظ بھولنے کا مطلب یہ ہے کہ زبانی یاد نہ رہے جبکہ دیگر حضرات کے نزدیک بھولنے کا مطلب یہ ہے کہ اتنا بھول جائے کہ ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے تاہم دونوں مطلبوں کے لحاظ سے وہ بھولنا مراد ہے جو لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے ہو لہذا اپنی ہمت ،کوشش کرنے کے باوجود بھول جائے تو گناہ نہ ہوگا۔اس لئے محض اس وعید کے ڈر سے حفظ سے نہ ہٹایا جائے تاہم اگر بچی میں ہمت نہ ہو تو وہ حفظ کرنا چھوڑ سکتی ہے۔

شامی(228/2)میں ہے:"و حفظ جميع القرآن فرض كفاية”قال ابن عابدين "فرض الكفاية”معناه فرض ذو كفاية اى يكتفي بحصوله من اي فاعل كان۔ہندیہ(97/9)میں ہے:اذا حفظ الانسان القرآن ثم نسيه فانه ياثم،وتفسير النسيان ان لا يمكنه القراءة من المصحفمرقاةالمفاتیح(423/2)میں ہے:والنسيان عندنا ان لا يقدر ان يقرأ بالنظرمرقاة المفاتیح (700/4)میں ہے:النسيان عند علمائنا محمول على حال لم يقدر عليه بالنظر،سواء كان حافظا ام لابذل المجہود (266/1)میں ہے:و” النسيان عندنا ان لا يقدر ان يقرأ بالنظر”،كذا في شرعة الاسلامالحلبی الکبیر(498)میں ہے:"و النسيان ان لا يمكنه القراءة من المصحف”لمعات التنقیح(593/4)میں ہے:(ثم ينساه)ظاهره نسيانه بعد حفظه،فقد عد ذالك من الكبائر وقيل:المراد به جهله بحيث لا يعرف القراءة و قيل:النسيان يكون بمعنى الذهول و بمعنى الترك وهو ههنا بمعنى الترك اى ترك العمل بهمرقاۃ المفاتیح(81/5)میں ہے:ما من امرىء يقرأ القرآن ثم ينساه)اي بالنظر عندنا و بالغيب عند الشافعى او المعنى ثم يترك قرائته نسى او ما نسىاعلاء السنن(185/4)میں ہے:قوله:”عن سعد بن عبادة”الخ قلت:قال في الهندية:اذا حفظ الانسان القرآن ثم نسيه فانه يأثم،و تفسير النسيان ان لا يمكنه القراءة من المصحف        قلت:ولم ينشرح صدري بهذا التفسير الذي ذكره،بل الظاهر ان نسيان الحافظ ان لا يمكنه القراءة عن ظهر القلب،و نسيان غير الحافظ ان لا يمكنه القراءة من المصحف،ولا ادري لعل الله يحدث بعد ذلك امرالمعات التنقیح(2/475)میں ہے:قوله(فلم ار ذنبا اعظم من سورة)اى: من ذنب نسيانها،و في هذا زجر و تشديد،فان نسيان القرآن ليس اعظم الذنوب،وان عده بعض العلماء من الكبائر،كما نقله مولانا جلال الدواني عن الروياني في(شرح العقائد العضدية)لكن بعضهم اولوا بنسيانه بحيث لا يقدر علی  قراءته من المصحف.و الظاهر من الحديث نسيانها بمعنى عدم الحفظ عن ظهر القلبمرعاةالمفتاح للتبریزی(271/16) میں ہے:قوله(ما من امرىء يقرأ القرآن)قلت المتبادر من النسيان الواقع في هذا الحديث وامثاله هو النسيان ليد الحفظ عن ظهر القلب فهو المراد منه(الا لقى الله…….)لمعات التنقیح(593/4)میں ہے:(ثم ينساه)ظاهره نسيانه بعد حفظه،فقد عد ذالك في الكبائر و قيل:المراد به جهله بحيث لا يعرف القراءة و قيل:النسيان يكون بمعنى الذهول و بمعنى الترك وهو ههنا بمعنى الترك اى ترك العمل بهفتاوی دارالعلوم دیوبند (246/14)میں ہے:سوال :جو شخص قرآن پڑھ کر اس کو چھوڑ دے اور جب اس کو کہا جائے تو یہ جواب دے کہ مجھے دنیاوی کاروبار سے فرصت نہیں ملتی اور آیت”و من اعرض عن ذكري الآية”کے حاشیے پر یہ عبارت درج ہے کہ سب سے بڑا گناہ قرآن شریف کی آیت کو یاد کر کے بھلا دینا ہے ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے؟جواب :قرآن پڑھ کر اور یاد کرکے بھول جانا سخت گناہ ہیں لیکن یہ اس وقت ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے اور جو عبارت حاشیہ میں نقل کی ہے وہ صحیح ہے۔فتاوی محمودیہ(516/3)میں ہے:سوال :ایک شخص نے قرآن شریف کو حفظ کیا تھا لیکن بھول گیا اب ضعیفی میں اس کو خیال ہوا لیکن یاد نہیں ہوتا،اگر اسکی بجائے نفل نمازوں کی کثرت کرے تو کیا اس وعید سے بچ سکتا ہے جو یاد کر کے بھلا دینے پر ہے یا یاد کرنے میں لگے رہنا بہتر ہے خواہ یاد ہو یا نہ ہو؟جواب :وہ وعید اس وقت ہے جب دیکھ کر پڑھنے پر بھی قادر نہ ہو-فتاوی عثمانی(199/1)میں ہے:سوال :احقر نے قرآن حفظ کیا تھا مگر ٹی بی کی وجہ سے اس کا ورد جاری نہیں رہ سکا اب صحت کی صورت نظر نہیں آتی ایسی صورت میں اگر موت آ جائے تو کیا قیامت کے دن اندھا اٹھایا جاؤں گا؟جواب :اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہوئی ہے اس کے الفاظ میں ہے کہ”ما من امريء يقرأ القرآن ثم ينساه الا لقي الله يوم القيامة اجزم"یعنی جو شخص بھی قرآن پڑھے پھر اسے بھلا دے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے جزام کی حالت میں ملے گا۔ملا علی قاری لم ينسه”کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں”ان بالنظر عندنا و بالغيب عند الشافعي او المعنى ثم يترك قرائته نسى او ما نسى"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک یہ وعید اس شخص پر ہے جو ناظرہ پڑھنے کی اہلیت بھی اپنی لا پرواہی سے ختم کر دے۔۔۔۔۔۔۔الخ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved