• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

كيا ضعيف حديث بيان كرسكتے ہیں؟

استفتاء

"حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن يعقوب بن عتبة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن عائشة، قالت: رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من البقيع، فوجدني وأنا أجد ‌صداعا في رأسي، وأنا أقول: وارأساه. فقال: بل أنا يا عائشة وارأساه ثم قال: ما ضرك لو مت قبلي فقمت عليك فغسلتك وكفنتك، وصليت عليك ودفنتك. (سنن ابن ماجہ: ۱۴۶۵)”

ترجمہ:(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ) رسول اللہﷺ بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی ہائے سر تو آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ اے عائشہ میں ہائے سر کہتا ہوں پھر آپ ﷺ نے فرمایا تمہارا کیا نقصان ہوگا اگر تم مجھ سے پہلے مرو گی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا تمہیں غسل دلاؤں گا تمہاری تکفین کروں گا تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا اور تمہیں دفن کروں گا“ (سنن ابن ماجہ:۱۴۶۵)

محترم یہ ضعیف حدیث ہے جس کی وجہ کا نہیں پتہ مہربانی کرکے رہنمائی فرمائیں کہ ضعیف حدیث کو ماننا چاہیے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کا یہ کہنا کہ ’’یہ ضعیف حدیث ہے‘‘ درست نہیں کیونکہ یہ حدیث  ضعیف نہیں بلکہ حسن درجہ کی ہے کیونکہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے محمد بن اسحق بن یسار کے اور محمد بن اسحق بن یسار کی جرح و تعدیل میں اگرچہ اچھا خاصا اختلاف ہے تاہم وہ اس درجہ کے ضعیف راوی نہیں کہ محض ان کی وجہ سے حدیث کو ضعیف کہا جاسکے۔ نیز مذکورہ مضمون صحیح بخاری کی روایت میں بھی موجود  ہے۔ لہذا اسے نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔

صحيح بخاری (5666،7/ 119) میں ہے:

”حدثنا ‌يحيى بن يحيى أبو زكرياء: أخبرنا ‌سليمان بن بلال، عن ‌يحيى بن سعيد قال: سمعت ‌القاسم بن محمد قال: «قالت عائشة: وارأساه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ذاك لو كان وأنا حي فأستغفر لك وأدعو لك، فقالت عائشة: واثكلياه، والله إني لأظنك تحب موتي، ولو كان ذاك لظللت آخر يومك معرسا ببعض أزواجك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: بل أنا وارأساه، لقد هممت أو أردت أن أرسل إلى أبي بكر وابنه، وأعهد أن يقول القائلون أو يتمنى المتمنون، ثم قلت: يأبى الله ويدفع المؤمنون أو يدفع الله ويأبى المؤمنون.“

تاريخ ابن معين  روایۃ الدوری (التابعين ومن بعدہم من اهل مكۃ،رقم:230،3/ 60) میں ہے:

”سألت يحيى أيما أحب إليك موسى بن عبيدة الربذي أو ‌محمد ‌بن ‌إسحاق فقال ‌محمد ‌بن ‌إسحاق.(قال الراوي) سمعت العباس يقول سمعت أحمد بن حنبل وسئل وهو على باب أبى النضر هاشم بن القاسم فقيل له يا أبا عبد الله ما تقول في موسى بن عبيدة الربذي وفى ‌محمد ‌بن ‌إسحاق فقال أما ‌محمد ‌بن ‌إسحاق فهو رجل تكتب عنه هذه الأحاديث كأنه يعنى المغازي ونحوها“

تاريخ ابن معين  روایۃ الدوری (التابعين ومن بعدہم من اهل مدینۃ،رقم:1047،3/ 225) میں ہے:

”سمعت يحيى يقول ‌محمد ‌بن ‌إسحاق ثقة ولكنه ليس بحجة“

سوالات ابن ابی شیبہ لابن المدينی (ص89) میں ہے:

”وسألت عليا عن محمد بن اسحاق بن يسار مولى آل مخرمه فقال هو صالح وسط“

تذكرة الحفاظ للذہبی (1/ 130) میں ہے:

”والذي تقرر عليه العمل أن ابن إسحاق إليه المرجع في المغازي والأيام النبوية مع أنه يشذ بأشياء وأنه ليس بحجة في الحلال والحرام نعم ولا بالواهي بل يستشهد به“

الترغیب والترھیب للمنذری (1/ 37) میں ہے:

”فاقول إذا كان رواة إسناد الحديث ثقات وفيهم ‌من ‌اختلف ‌فيه: إسناده حسن او مستقيم او لا بأس به“

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved