• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا حضورﷺ نے موٹاپے سے پناہ مانگی ہے اس کی تحقیق

استفتاء

عام طور سے کہا جاتا ہے کہ “اللہ کے نبیﷺ نے موٹاپے سے پناہ مانگی ہے”

کیا یہ بات درست ہے ؟اگر ہے توحوالہ بتا دیں۔

استفتاء

ہمارے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں کہ جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے موٹاپے سے پناہ مانگی ہو،البتہ ایک حدیث میں ہے:

ان الله يبغض الحبر السمين.

ترجمہ :اللہ تعالی فربہ (موٹے)عالم کو ناپسند فرماتے ہیں۔

اس حدیث کی تشریح میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں:

1۔موٹاپے سے مراد جسمانی موٹاپا نہیں ہے بلکہ موٹاپا ایک استعارہ ہے جسکا مطلب یہ ہےکہ کوئی شخص تکبر کرے یا ایسے منصب کا دعوی کرے جسکا وہ حامل نہیں ہے۔اس مطلب کو دوسری حدیث میں جھوت کا لباس پہننے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

2۔موٹاپے سے مراد مال و زر جمع کرنا ہے۔

3۔موٹاپے سے مرادکھانوں میں بے دریغ فراوانی  ہےجو کہ موٹاپے کا سبب بنتی ہے۔

4۔موٹاپے سے مراد دینی امور میں غفلت ہے،کیونکہ عام طور پرموٹاپے کی وجہ سے  لوگ اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرنے کے عادی نہیں ہوتےبلکہ انکا مطمح نظر آرام و سکون ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ  ہے کہ جو شخص خلقت کے لحاظ سے موٹا ہو اور مندرجہ بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں مبتلا نہ ہو تو وہ اس حدیث میں داخل نہیں،اس لیے عین ممکن ہے کہ ایک آدمی جسمانی لحاظ سے موٹا ہو مگر اپنی صفات کے اعتبار سے اللہ تعالی کو پسندیدہ بھی ہو، کیونکہ موٹاپا غیر اختیاری بھی ہوتا ہے۔

مشکوۃ المصابیح حدیث نمبر 6010 میں ہے:

وعن عمران بن حصين قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” خير أمتي

 قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم إن بعدهم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن ” .

مرقاۃ المفاتیح 11/157 میں ہے:

 (ويظهر فيهم السمن)قال صاحب النهاية في الحديث يكون في آخر الزمان قوم يتسمنون أي يتكبرون بما ليس فيهم ويدعون ما ليس لهم من الشرف وقيل أراد جمعهم الأموال وقيل يحبون التوسع في المآكل والمشارب وهي أسباب السمن وقال التوربشتي كني به عن الغفلة وقلة الاهتمام بأمر الدين فإن الغالب على ذوي السمانة أن لا يهتموا بارتياض النفوس بل معظم همتهم تناول الحظوظ والتفرغ للدعة والنوم وفي شرح مسلم قالوا والمذموم من السمن ما يستكسب وأما ما هو خلقه فلا يدخل في هذا ، انتهى.وبه يظهر معنى ما ورد من أن الله يبغض الحبر السمين.

شرح النووي علی المسلم(86/16)میں ہے:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « خَيْرُ أُمَّتِى الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ». وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لاَ قَالَ « ثُمَّ يَخْلُفُ قَوْمٌ يُحِبُّونَ السَّمَانَةَ يَشْهَدُونَ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدُوا ».

( ثم يخلف قوم يحبون السمانة يشهدون قبل أن يستشهدوا ) وفي رواية ويظهر قوم فيهم السمن ، السمانة بفتح السين هي السمن قال جمهور العلماءفي معنى هذا الحديث المراد بالسمن هنا كثرة اللحم ومعناه أنه يكثر ذلك فيهم وليس معناه أن يتمحضوا سمانا قالوا والمذموم منه من يستكسبه وأما من هو فيه خلقة فلا يدخل في هذا والمتكسب له هو المتوسع في المأكول والمشروب زائدا على المعتاد وقيل المراد بالسمن هنا أنهم يتكثرون بما ليس فيهم ويدعون ما ليس لهم من الشرف وغيره وقيل المراد جمعهم الاموال

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved