• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا حضرت عمر اتنے بہادر ہونے کے باوجود ڈر گئے تھے؟

استفتاء

حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ:حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : فَأَخْبَرَنِي جَدِّي زَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ :بَيْنَمَا هُوَ فِي الدَّارِ خَائِفًا إِذْ جَاءَهُ الْعَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ أَبُو عَمْرٍو عَلَيْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ وَقَمِيصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِيرٍ وَهُوَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَقَالَ لَهُ :مَا بَالُكَ؟ قَالَ: زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَيَقْتُلُونِي إِنْ أَسْلَمْتُ ، قَالَ :لَا سَبِيلَ إِلَيْكَ بَعْدَ أَنْ أَمِنْتُ فَخَرَجَ الْعَاصِ فَلَقِيَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمْ الْوَادِي، فَقَالَ : أَيْنَ تُرِيدُونَ؟ فَقَالُوا : نُرِيدُ هَذَا ابْنَ الْخَطَّابِ الَّذِي صَبَا ، قَالَ : لَا سَبِيلَ إِلَيْهِ فَكَرَّ النَّاسُ [صحيح بخاري، رقم الحديث:3864،]

ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے کے بعد قریش سے ) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوعمرو عاص بن وائل سہمی اندر آیا ، ایک دھاری دار چادر اور ریشمی کرتہ پہنے ہوئے تھا ۔ وہ قبیلہ بنو سہم سے تھا جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے حلیف تھے ۔ عاص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کیا بات ہے ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہاری قوم بنو سہم والے کہتے ہیں کہ اگر میں مسلمان ہوا تو وہ مجھ کو مار ڈالیں گے ۔ عاص نے کہا ” تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا “ جب عاص نے یہ کلمہ کہہ دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں بھی اپنے کو امان میں سمجھتا ہوں ۔ اس کے بعد عاص باہر نکلا تو دیکھا کہ میدان لوگوں سے بھر گیا ہے ۔ عاص نے پوچھا کدھر کا رخ ہے ؟ لوگوں نے کہا ہم ابن خطاب کی خبر لینے جاتے ہیں جو بے دین ہو گیا ہے ۔ عاص نے کہا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ، یہ سنتے ہی لوگ لوٹ گئے ۔

وضاحت مطلوب ہے: اس کے بارے کیا پوچھنا چاہتے ہیں واضح کریں ۔

جواب وضاحت: مطلب حضرت عمر تو اتنے بہادر تھے تو ان کے بارے یہ کیوں لکھا ہوا ہے کہ وہ ڈر گئے تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حضرت عمرؓ کا ایک آدھ موقع   پراور وہ بھی بہت معمولی وقت کے لیے ڈر جانا اس بات کے منافی نہیں کہ حضرت عمرؓ بہادر نہیں تھے کیونکہ آدمی کی بہادری  کا فیصلہ اس کی زندگی کے اکثر وبیشتر واقعات کو سامنے   رکھ کر کیا جاتا ہے ایک آدھ واقعے کو سامنے رکھ  کر نہیں کیا جاتا۔نیز حضرت عمرؓ کے بارے  میں “خائفا” کا لفظ صرف اسی حدیث میں ملتا ہے اس کے علاوہ کسی اور حدیث میں ہمیں یہ  لفظ نہیں ملا بلکہ دیگر کتب  حدیث میں تو یہاں تک  مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ اس موقع پر صبح سے لے کر دوپہر تک قریش سے اکیلے لڑتے رہے یہاں تک کہ تھک کر بیٹھ گئے تو اس کے بعد  عاص بن وائل آئے اور حضرت عمرؓ کو کہا آپ میری امان  میں ہیں اب آپ کو کوئی  کچھ نہیں کہہ سکتا چنانچہ عاص بن وائل کے پناہ دینے کے بعد لوگوں کا مجمع چھٹ گیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ ڈرے نہیں تھے بلکہ کفار سے لڑے  تھے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 91)  میں ہے:

حدثنا أبو بكر أحمد بن سليمان الفقيه، وأبو عبد الله محمد بن عبد الله الزاهد، وعلي بن حمشاذ العدل، قالوا: ثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي، ثنا سليمان بن حرب، ثنا حماد بن زيد، عن محمد بن إسحاق، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قاتل عمر المشركين في مسجد مكة، فلم يزل يقاتلهم منذ غدوة، حتى صارت الشمس حيال رأسه، قال: وأعيي وقعد فدخل عليه رجل ‌عليه ‌برد ‌أحمر وقميص قومسي حسن الوجه، فجاء حتى أفرجهم، فقال: ما تريدون من هذا الرجل؟ قالوا: لا والله إلا أنه صبأ، قال: فنعم رجل اختار لنفسه دينا فدعوه وما اختار لنفسه، ترون بني عدي ترضى أن يقتل عمر؟ لا والله لا ترضى بنو عدي، قال: وقال عمر يومئذ: «يا أعداء الله، والله لو قد بلغنا بثلاث مائة لقد أخرجناكم منها» ، قلت لأبي بعد: من ذلك الرجل الذي ردهم عنك يومئذ؟ قال: «ذاك العاص بن وائل أبو عمرو بن العاص»هذا حديث صحيح

تاريخ الإسلام، للشمس الدین الذہبی،ت:748ھ (1/ 176)  میں ہے:

«عن ابن إسحاق حدثني نافع، عن ابن عمر قال: لما أسلم عمر قال: أي قريش أنقل للحديث؟ قيل: جميل بن معمر الجمحي، فغدا عليه، قال ابن عمر: وغدوت أتبع أثره وأنا غلام أعقل، حتى جاءه فقال: أعلمت أني أسلمت؟ فو الله ما راجعه حتى قام يجر رداءه، ‌حتى ‌قام ‌على ‌باب ‌المسجد صرخ بأعلى صوته: يا معشر قريش، ألا إن ابن الخطاب قد صبأ، قال يقول عمر من خلفه: كذب، ولكني أسلمت، وثاروا إليه فما برح يقاتلهم، ويقاتلونه حتى قامت الشمس على رءوسهم، قال وطلح  (فقعد وقاموا على رأسه وهو يقول: افعلوا ما بدا لكم، فأحلف بالله أن لو كنا ثلاثمائة رجل لقد تركناها لكم) أو تركتموها لنا، فبينا هو على ذلك، إذ أقبل شيخ عليه حلة حبرة، وقميص موشى، حتى وقف عليهم فقال: ما شأنكم؟ قالوا: صبأ عمر، قال: فمه! رجل اختار لنفسه أمرا فماذا تريدون! أترون بني كعب بن عدي يسلمونه! خلوا عنه، قال: فو الله لكأنما كانوا ثوبا كشط عنه، فقلت لأبي بعد أن هاجر: يا أبه، من الرجل الذي زجر القوم عنك؟ قال العاص بن وائل»وأخرجه ابن حبان، من حديث جرير بن حازم، عن ابن إسحاق .

صحيح البخاری (رقم الحدیث:3864)  میں ہے:

حدثني ‌يحيى بن سليمان قال: حدثني ‌ابن وهب قال: حدثني ‌عمر بن محمد قال: فأخبرني جدي ‌زيد بن عبد الله بن عمر، عن ‌أبيه قال: «بينما هو في الدار خائفا، إذ جاءه العاص بن وائل السهمي أبو عمرو، عليه حلة حبرة وقميص مكفوف بحرير، وهو من بني سهم، وهم حلفاؤنا في الجاهلية، فقال له: ما بالك؟ قال: زعم قومك أنهم سيقتلوني إن أسلمت، قال: لا سبيل إليك، بعد أن قالها أمنت، فخرج العاص فلقي الناس قد سال بهم الوادي، فقال: أين تريدون؟ فقالوا: ‌نريد ‌هذا ‌ابن ‌الخطاب ‌الذي ‌صبا، ‌قال: ‌لا ‌سبيل ‌إليه، ‌فكر ‌الناس.»

صحيح البخاری (رقم الحدیث:3865)  میں ہے:

حدثنا ‌علي بن عبد الله: حدثنا ‌سفيان قال ‌عمرو بن دينار سمعته قال: قال ‌عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: «لما أسلم عمر، اجتمع الناس عند داره، وقالوا: صبا عمر، وأنا غلام فوق ظهر بيتي، فجاء رجل عليه قباء من ديباج، فقال: قد صبا عمر، فما ذاك؟ فأنا له جار، قال: فرأيت الناس تصدعوا عنه، فقلت: من هذا؟ قالوا: العاص بن وائل.»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved