- فتوی نمبر: 31-152
- تاریخ: 22 جولائی 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
(1)لوگ اکثر کہتے ہیں کہ کھانا کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے اس بارے میں رہنمائی فرمادیں۔
(2) اور کچھ لوگ کھانے کےبعد کی قید نہیں لگاتے بلکہ وہ مطلقا کہتے ہیں کہ میٹھا کھانا سنت ہے، دونوں صورتوں کے بارے میں رہنمائی فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)ایک حدیث میں کھانے کے بعد کھجور کا کھانا ثابت ہے لیکن کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا معمول ثابت نہیں اور ایک آدھ دفعہ کے عمل سے سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ سنت ایسے عمل کو کہتے ہیں جسے معمول بنایا گیا ہو خواہ معمول بطور عبادت کے ہو یا بطور عادت کے ہو لہٰذا کھانے کے بعد میٹھا کھانے کو سنت کہنا درست نہیں۔
(2)چونکہ آپﷺ کو میٹھا پسند تھا اس لیے مطلقاً میٹھا کھانے کو سنت کہنا درست ہے۔لیکن واضح رہے کہ یہ سنت، سنت عادیہ ہے جس کو سنت زائدہ بھی کہتے ہیں سنت زائدہ پر اگر کوئی آپﷺ کی اتباع کی نیت سے عمل کرے تو یہ باعث اجر وثواب ہے اور اگر کوئی محض اپنی عادت کے طور پر کرے تو یہ باعث اجر وثواب بھی نہیں نیز اگر کوئی عمل نہ بھی کرے تو اس پر کوئی ملامت بھی نہیں۔
مشکوٰۃ المصابیح (2/1213) میں ہے:
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل. رواه البخاري
شامی (1/ 102) میں ہے:
«اعلم أن المشروعات أربعة أقسام، فرض وواجب وسنة ونفل، فما كان فعله أولى من تركه مع منع الترك إن ثبت بدليل قطعي ففرض، أو بظني فواجب، وبلا منع الترك إن في السنة كان مما واظب عليه الرسول – صلى الله عليه وسلم – أو الخلفاء الراشدون من بعده فسنة، وإلافمندوب ونفل»
مطلب في السنة وتعريفها
والسنة نوعان: سنة الهدي، وتركها يوجب إساءة وكراهية كالجماعة والأذان والإقامة ونحوها. وسنة الزوائد، وتركها لا يوجب ذلك كسير النبي – عليه الصلاة والسلام – في لباسه وقيامه وقعوده. والنفل ومنه المندوب يثاب فاعله ولا يسيء تاركه، قيل: وهو دون سنن الزوائد.ويرد عليه أن النفل من العبادات وسنن الزوائد من العادات، وهل يقول أحد إن نافلة الحج دون التيامن في التنعل والترجل، كذا حققه العلامة ابن الكمال في تغيير التنقيح وشرحه.أقول: فلا فرق بين النفل وسنن الزوائد من حيث الحكم؛ لأنه لا يكره ترك كل منهما، وإنما الفرق كون الأول من العبادات والثاني من العادات، لكن أورد عليه أن الفرق بين العبادة والعادة هو النية المتضمنة للإخلاص، كما في الكافي وغيره، وجميع أفعاله – صلى الله عليه وسلم – مشتملة عليها كما بين في محله.وأقول: قد مثلوا لسنة الزوائد أيضا «بتطويله – عليه الصلاة والسلام – القراءة والركوع والسجود» ، ولا شك في كون ذلك عبادة، وحينئذ فمعنى كون سنة الزوائد عادة أن النبي – صلى الله عليه وسلم – واظب عليها حتى صارت عادة له ولم يتركها إلا أحيانا؛ لأن السنة هي الطريقة المسلوكة في الدين، فهي في نفسها عبادة وسميت عادة لما ذكرنا. ولما لم تكن من مكملات الدين وشعائره سميت سنة الزوائد، بخلاف سنة الهدي، وهي السنن المؤكدة القريبة من الواجب التي يضلل تاركها؛ لأن تركها استخفاف بالدين، وبخلاف النفل فإنه كما قالوا ما شرع لنا زيادة على الفرض والواجب والسنة بنوعيها؛ ولذا جعلوا قسما رابعا، وجعلوا منه المندوب والمستحب، وهو ما ورد به دليل ندب يخصه، كما في التحرير؛ فالنفل ما ورد به دليل ندب عموما أو خصوصا ولم يواظب عليه النبي – صلى الله عليه وسلم -؛ ولذا كان دون سنة الزوائد، كما صرح به في التنقيح. وقد يطلق النفل على ما يشمل السنن الرواتب، ومنه قوله: باب الوتر والنوافل، ومنه تسمية الحج نافلة لأن النفل الزيادة، وهو زائد على الفرض مع أنه من شعائر الدين العامة، ولا شك أنه أفضل من تثليث غسل اليدين في الوضوء ومن رفعهما للتحريمة مع أنهما من السنن المؤكدة، فتعين ما قلنا، وبه اندفع ما أورده ابن الكمال، فاغتنم تحقيق هذا المحل فإنك لا تجده في غير هذا الكتاب، والله تعالى أعلم بالصواب
الأشباه والنظائر (ص20) میں ہے:
وعلى هذا سائر القرب لا بد فيها من النية، بمعنى توقف حصول الثواب على قصد التقرب بها إلى الله تعالى»………
الأشباه والنظائر (ص25) میں ہے:
«الثاني: في بيان ما شرعت لأجله قالوا المقصود منها تمييز العبادات من العادات وتمييز بعض العبادات عن بعض كما في النهاية وفتح القدير كالإمساك عن المفطرات.قد يكون حمية أو تداوياأو لعدم الحاجة إليه والجلوس في المسجد قد يكون للاستراحة وقد يكون قربة.ودفع المال قد يكون هبة أو لغرض دنيوي وقد يكون قربة، زكاة أو صدقة والذبح قد يكون لأكل فيكون مباحاأو مندوباأو للأضحية فيكون عبادة أو لقدوم أمير فيكون حرام
فتاوی محمودیہ (19/270) میں ہے:
سوال: نصف ساق تک کرتہ سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ ہے؟ اگر کوئی اس کو ترک کرے تو گناہ گار ہوگا یا نہیں؟
جواب: مؤکدہ اور غیر مؤکدہ سنن ھدی کی قسمیں ہیں ۔ کرتہ وغیرہ کا طول اور ہیئت سنن زوائد میں سے جس میں یہ تقسیم نہیں ایسی سنن کا حکم یہ ہے کہ بنیت اتباع اختیار کرنے میں ثواب ملے گا ،ترک کرنے میں ثواب سے محرومی ہوگی۔ لیکن کفار یا فساق کے شعار کو اختیار کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔
فقہ حنفی کے اصول وضوابط(ص :133) میں ہے:
سنن عادیہ و سنن عبادیہ کے حدود سنن عادیہ کا حکم!
ایک صاحب نے استفسار کیا کہ کیا بکریاں پالنا سنت ہے ؟ فرمایا جی ہاں سنت ہے لیکن سنت عادیہ ہے سنت عبادت نہیں اور اصل مقصود سنت عبادت ہے ۔ البتہ سنت عادیہ میں اگر منشا اس کا محبت ہے تو اس میں ثواب اور برکت ہے ۔ اس میں غلو یعنی سنت عبادت کا سا اہتمام نہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved