• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں؟

  • فتوی نمبر: 28-58
  • تاریخ: 19 دسمبر 2022

استفتاء

السلام علیکم! محترم حضرت مفتی صاحب، ایک مسئلہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک مسجد ہے، ابھی حالیہ بارشوں کی وجہ سے منہدم ہوئی ہے  اب مسجد والے اس مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں چند وجوہات کی بنا پر:

1۔ مسجد اگرچہ تعمیر کے وقت گھر سے باہر تھی لیکن اب وہ مسجد گھر کے اندر ہے ۔

2۔ تبلیغی جماعت والوں کے لئے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

3۔ باہر سے آنے والے نمازیوں کیلئے بھی مشکل ہے کیونکہ اس وقت مسجد گھر کے اندر ہے ۔

4۔ پہلی جگہ سے دوسری جگہ جہاں منتقل کرنا چاہتے ہیں اچھی ہے پانی کے لحاظ سے بھی اور جگہ کے لحاظ سے بھی۔

اب پوچھنا یہ ہے  کہ:

1.کیا یہ مسجد دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2.اگر منتقل کر سکتے ہیں تو اس پرانی مسجد کی اینٹ وغیرہ کا کیا کیا جائے؟ اور اس پرانی مسجد کی جگہ کا کیا حکم ہے؟ اس جگہ پر کوئی چمن وغیرہ لگا سکتے یا محفوظ کرلیں؟

وضاحت مطلوب ہے: کیا یہ شرعی مسجد ہے؟ نیزمسجد تعمیر کے وقت گھر سے باہر تھی تو پھر گھر کے اندر کیسے آگئی؟

جواب وضاحت:  جی ہاں۔ یہ باقاعدہ شرعی مسجد ہے بڑوں نے یہ مسجد بنوائی تھی اور لوگ اعتکاف بھی بیٹھتے ہیں۔ کچھ  عرصہ پہلے بھائیوں نے آپس میں تقسیم کی اور گھر کے افراد بھی زیادہ ہوگئے، انہوں نے گھر کی چار دیواری وسیع کردی اس وجہ سے یہ مسجد  اب گھر کے اندر آگئی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جس جگہ ایک دفعہ مسجد بن جائے وہ جگہ قیامت تک مسجد رہتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں مسجد کو منتقل کرنا جائز نہیں۔ گھر والوں کو چاہیے کہ مسجد کا راستہ الگ کردیں۔

امداد المفتین (ص:637) میں ہے:

سوال ۲۹۰) ایک جگہ سے بوجہ کسی  ضرورت کے مسجد اکھاڑ کر دوسری جگہ بنائی جائے تو مسجد اول کے تحصیل سے کسی قسم کا نفع مثل قبر ڈالنے یا زراعت کرنا وغیرہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟ اور مسجد کا پرانا کاٹھ اور لکڑی وغیر ہ دوسری مسجد میں خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف منتقل کرنا کسی حال جائز نہیں اگر چہ پہلی مسجد کے قریب میں کوئی آبادی نہ رہی ہو اور اس میں کوئی نماز نہ پڑھتا ہو۔ مسجد کسی حال دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتی، جو جگہ ایک دفعہ مسجد بن گئی وہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی البتہ اگر کوئی مسجد بالکل ویران ہو جائے اور اس کے آس پاس کوئی آبادی نہ رہے اور یہ خطرہ ہو کہ اگر اس کے سامان کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تولوگ چرالیں گے، ایسی حالت میں اس کے سامان کو کسی آباد مسجد میں لگا دینا بعض حضرات نے جائز رکھا ہے اور اسی پر فتوی ہے لیکن اس حالت میں بھی اس مسجد کی زمین کو کسی دوسرے کام زراعت وغیرہ میں لگادینا جائز نہیں بلکہ وہ بدستور مسجد ہے اور احترام مسجد اس کا قائم بدستورہے۔

لما في البحر الرائق [5/421]: قال ابو یوسف هو مسجد ابدا ابدا الى قيام الساعة لا يعود میراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله الی مسجد آخر سواء كانو يصلون فيه او لا وهو الفتوى. ثم قال فيه [5/423]: وبه علم ان الفتوى على قول محمد في آلات المسجد (اي في جواز النقل للضرورة) وعلى قول ابی يوسف في تابيد المسجد.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved