- فتوی نمبر: 11-274
- تاریخ: 25 اپریل 2018
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دو سگی بہنیں میکے میں کسی فنگشن پر اکٹھی ہوئیں ۔اتفاق سے ایک دن ایک بہن اپنے بیٹے کو جو ایک سال کا تھا،دودھ پلارہی تھی کہ دوسری بہن کی بیٹی جو سات ماہ کی ہے اچانک اٹھ گئی اور زورزور سے چیخنا شروع کردیا ۔بچی کی والدہ گھر میں دوسرے کمرے میں مصروف تھی بچی کے رونے اور شور کرنے پر آئی اور بہن کو کہنے لگی ذرا اس کا دھیان رکھنا میں دودھ بنا کر لاتی ہوں ۔ادھر بچی چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔اس کا چیخنا اور رونا پاس بیٹھی خالہ سے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے بچی کو اٹھا یا اور چپ کروانے کی غرض سے دودھ کا دوسرا حصہ (پستان)بچی کے منہ میں دے دیا تاکہ بچی کی ماں کے آنے تک چپ ہو جائے ،خالہ دودھ سے بھری تھی بچی نے خالہ کا دودھ پی لیا کتنا پیایہ علم نہیں مگر پیا ضرور اور یہ زندگی میں ایک بارہوا ۔یہ مسئلہ ہمارے علم میں ہے کہ دودھ پینے والی بچی اپنے خالہ کے بیٹے کے لیے رضاعی بہن بن گئی ہے اور ان کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا ۔لیکن لڑکا اب جوان ہو کر بضد ہے کہ میں نے اس خالہ کی اسی بیٹی سے شادی کرنی ہے اور مذکورہ حالت کا اس کو علم ہے اور مضبوط شواہد کیمطابق لڑکے کی دودھ شریک ہے ۔کیا ان دونوں بچوں کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟نکاح ہو سکنے کے جواز میں بچے نے ہمیں کچھ دینی معلومات مختلف حوالوں سے دی ہیں ۔نوٹ بعض حضرات،حضرت عائشہ ؓکی روایت پیش کرتے ہیں کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے ۔اس حوالہ سے شرعی رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ان دونوں بچوں کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا دودھ خواہ تھوڑا پیا ہو یا زیادہ اس سے فرق نہیں پڑتا ۔اس مسئلہ میں حضرت عائشہ ؓسے جو روایت منقول ہے اس سے استدلال درست نہیں کیونکہ حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق میں پہلے دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت کی آیات تھیں وہ منسوخ ہوگئیں اور پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت والی آیات باقی رہ گئیںجبکہ تمام اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ قر آن میں پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت والی آیات بھی موجود نہیں جس سے معلوم ہوا کہ پانچ مرتبہ دودھ پینے سے حرمت والی بات بھی منسوخ ہے ۔
چنانچہ احکام القر آن للعلامہ ظفر احمد عثمانیؒ (27/2)میں ہے:
ووجه القول :بالخمس حدیث عائشة ؓقالت :کان فیما انزل من القر آن عشر رضعات معلومات یحرمن ثم نسخ بخمس معلومات فتوفی رسول الله ﷺ وهی فیما یقرأمن القر آن فنسخ من ذلک خمس وصار الی خمس رضعات فتوفی رسول الله ﷺ والامر علی ذلک…
الجواب عن تقیید التحریم بثلاث رضعات او بخمس قلنا حدیث ال آحاد لا یعارض نص الکتاب المتواتر وعند التعارض یقدم التحریم احتیاطا وایضا حدیث عائشة ؓکان فیماانزل من القر آن وان کا ن صحیحا سندا لکنه متروک لانقطاعه باطنا فانه یدل علی انه لیس کذلک قطعا والتاویل بان معنی قولها توفی رسول الله ﷺ یعنی قارب الوفاة یقتضی نسخ الخمس قبیل الوفاة کما نسخ العشر قبل ذلک وهوالصحیح۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved