• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا ٹی وی خریدنے کا گناہ مرنے کے بعد بھی ہوگا؟

استفتاء

مفتی صاحب ہمارے والد صاحب نے اپنی وفات سے چند سال پہلے ایک ٹی وی خریدا تھا جس میں وہ خود بھی ڈرامے،فلمیں اور ارطغرل ڈرامہ دیکھتے تھے اور دوسرے لوگ بھی دیکھتے تھے اب ان کی وفات ہو گئی ہے ان کی وفات کے بعد بھی لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں اور گھر والے بھی دیکھتے ہیں سوال یہ ہے کہ لوگوں کا اس ٹی وی میں دیکھنے کی وجہ سے والد صاحب کو گناہ مل رہا ہے جس کی وجہ سے ان کو عذاب بھی ہو رہا ہوگایا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ڈرامے، فلمیں اور دیگر  ناجائز  کاموں کے لیے ٹی وی خریدنا ناجائز ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں چونکہ ٹی وی آپ کے والد صاحب  لائے تھے اور وہ بچوں کے ٹی وی دیکھنے پر راضی تھے اس لیے آپ کے  والد صاحب گنہگار ہو رہے ہیں ۔

عمدة القاری (90/25)میں ہے:

( باب إثم من دعا إلى ضلالة أو من سن سنة سيئة لقول الله تعالى ومن أوزار الذين يضلونهم بغير علم )

أي هذا باب في بيان إثم من دعا الناس إلى ضلالة أراد عليه إثم مثل إثم من تبعه فيها وقد ورد بذلك حديث عن أبي هريرة قال قال رسول الله من دعا إلى هدى كان له من الأجر مثل أجور من تبعه لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا ومن دعا إلى ضلالة كان عليه من الإثم مثل آثام من تبعه لا ينقص ذلك من آثامهم شيئا.

فتح الباری(3/153)میں ہے:

فالمعنى على هذا أن الذي يعذب ببعض بكاء أهله من كان راضيا بذلك بأن تكون تلك طريقته الخ ولذلك قال المصنف فإذا لم يكن من سنته أي كمن كان لا شعور عنده بأنهم يفعلون شيئا من ذلك أو أدى ما عليه بان نهاهم فهذا لا مؤاخذه عليه بفعل غيره ومن ثم قال بن المبارك إذا كان ينهاهم في حياته ففعلوا شيئا من ذلك بعد وفاته لم يكن عليه شيء قوله فهو كما قالت عائشة أي كما استدلت عائشة بقوله تعالى ولا تزر وازرة وزر أخرى أي ولا تحمل حاملة ذنبا ذنب أخرى عنها.

بدائع الصنائع فی  ترتيب الشرائع (4/ 337) میں ہے:

«ويجوز ‌بيع ‌آلات ‌الملاهي من البربط، والطبل، والمزمار، والدف، ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف، ومحمد: لا ينعقد بيع هذه الأشياء؛ لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق، والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها ولأبي حنيفة – رحمه الله – أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء، ونحو ذلك من المصالح فلا تخرج عن كونها أموالا، وقولهما: إنها آلات التلهي، والفسق بها»

احسن الفتاوی(8/306) میں ہے:

ٹی وی اپنی موجودہ صورت میں ڈھول ،سارنگی اور بینڈ باجوں کی طرح لہو لعب کا ایک آلہ ہے بلکہ مفاسد کے لحاظ سے دیگر آلات معاصی سے بڑھ کر ضرر رساں و تباہ کن ہے اس لیے اس کا بیچنا ،خریدنا،اجارہ پر دینا لینا،ہبہ قبول کرنا،مرمت کرنا،پاس رکھنا،اس کی تصویر دیکھنا،دکھانا یا ایسے مکان میں بیٹھنا جس میں ٹی وی چل رہا ہو یہ تمام کام حرام ہیں۔

جس مسلمان کو اس کبیرہ گناہ سے توبہ کی توفیق ہو وہ اسے توڑ پھوڑ کر ضائع کرے،ہاں اس میں کوئی کل پرزہ اس قسم کا موجود ہو جو کسی دوسرے مباح کام میں آسکتا ہو تو اس کے نکال لینے میں  مضائقہ نہیں نیز جس شخص یا کمپنی سے ٹی وی خریدا تھا قیمت خرید یا اس سے کم پر اسے واپس بھی کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved