• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’کیونکہ میں کافر ہوں‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

میرا اپنے شوہر کے ساتھ بہت محبت والا اور دوستانہ تعلق ہے الحمد للہ۔ ہم نے ابھی حال ہی میں عمرہ کیا ہے۔ اور یہ میرے خاوند کے لیے ایک زندگی تبدیل کر دینے والا تجربہ ثابت ہوا، وہ پہلے نماز کے پابند نہیں تھے مگر عمرہ کے بعد وہ پابندی سے باجماعت نماز پڑھنے والے بن گئے۔ ان کو ویڈیو گیمز کھیلے کا اتنا شوق ہے کہ وہ ان پر غالب آچکا ہے جس کی وجہ سے میں اکثر ناراض رہتی ہوں اور میرا موڈ بھی آف ہو جاتا ہے وہ فجر کے بعد سوئے نہیں اور گیمز کھیلتے رہے پھر ظہر کے قریب ہم نے ذرا باہر گھومنے کا فیصلہ کیا، میں نے انہیں کہا کہ میں اور بچے کار میں بیٹھے رہیں گے اور آپ نماز پڑھ سکیں گے انہوں نے کہا نہیں جب ہم مال میں پہنچیں گے تو میں نماز پڑھ لوں گا، میں نے کہا آپ جماعت چھوڑ بیٹھیں گے، انہوں نے کہا نہیں میں مال میں نماز پڑھ لوں گا، ابھی نہیں، میں نے پوچھا کیوں؟ اور انہیں تھوڑا دبایا، وہ غصہ ہو گئے اور کہا ’’کیونکہ میں کافر ہوں، یار آپ بھی پیچھے پڑ جاتی ہو‘‘ پھر ہم کار میں بیٹھے رہے اور وہ ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے چلے گئے۔

میں نے کہیں سے سنا تھا کہ ایک مسلمان نہ مذاق میں اور نہ ہی سنجیدگی میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ کافر ہے۔ کیا انہیں تجدید ایمان کی ضرورت ہے؟ کیا ہمارا نکاح ابھی تک باقی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  کے سیاق و سباق میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کا مقصود اپنے جملہ سے کہ ’’کیونکہ میں کافر ہوں‘‘کفر کا اقرار و اعتقاد نہیں بلکہ بیوی کی بار بار کی ضد اور اصرار سے تنگ آکر وقتی طور پر اپنا پیچھاچھڑانا ہے۔ لہذا ایسا جملہ کہنے سے نہ تو نکاح ٹوٹا ہے اور نہ ہی تجدید ایمان ضروری ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ یہ شخص توبہ و استغفار بھی کرے اور تجدید نکاح بھی کرے۔

نوٹ: بیوی کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ سمجھ بوجھ سے کام لیتیں اور اتنی ضد نہ کرتیں،  اور شوہر کے لیے بھی ضروری تھا کہ وہ ایسا جملہ ہر گز استعمال نہ کرتے جس سے کفر کا اندیشہ ہو۔ لہذا آئندہ کے لیے دونوں کو چاہیے کہ دینی کاموں میں احتیاط اور سمجھ بوجھ سے کام لیں۔

امداد الفتاویٰ (5/351) میں ہے:

’’سوال: اس وقت قابل گذارش یہ ہے کہ گھر میں کی حالت نہایت ابتر ہے، کچھ کی علالت کا اثر ہے اور کچھ جبلی عادت کا نتیجہ ہے۔ دین سے مس نہیں ہے، ہفتہ گذشتہ میں ان کی خالہ کا نواسہ آیا تھا، مجھ سے پوچھا میں اس کے سامنے آؤں یا نہیں؟ میں نے کہا یہ بالکل اجنبی ہے، شرعاً اس کے سامنے آنا درست نہیں۔ تو جواب دیا کہ ’’تمہارا شرع ہی ہر جگہ چلا کرتا ہے، میرا کنبہ سارا تو پٹ ہو گیا، ایک یہی باقی ہے، اس سے بھی نہ ملوں قید کر کے مار ڈالا، اس سے ملنے میں کیا اندیشہ ہے، کیا یہ مجھے بھگا لیجاوے گا‘‘ میں اس خیال سے کہ اس وقت ردّ و بدل کرنے سے اور بات بڑھے گی، نہ معلوم اور کیا بکنے لگے خاموش ہو گیا، دو تین دن کے بعد میں نے اس لفظ کو یاد دلایا کہ یہ کفر کے کلمات ہیں ہوش میں رہا کرو، اور زبان کو قابو میں رکھو، ان سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ تو جواب دیا کہ بس تم رہنے دو میں بری ہوں یا بھلی ہوں، تمیز دار ہوں، یا بدتمیز ہوں، کافر ہوں یا مسلمان، میں تم سے نہیں سیکھنے کی، میں کچھ سیکھوں گی یا کوئی مسئلہ پوچھوں گی تو اور کسی سے پوچھوں گی، تمہارا کہنا نہیں مانوں گی۔

اب عرض یہ ہے کہ ان کلمات سے کفر ہوا یا نہیں؟ اور احکام کفر جاری ہوں گے یا نہیں؟ نکاح باقی رہا یا نہیں؟

الجواب: مجموعہ مقولات میں غور کرنے سے دل کو یہ لگتا ہے کہ قائلہ کا مقصود شرع کا ردّ یا جحود نہیں ہے بلکہ اسی کا انکار ہے کہ یہ شرع ہے یا نہیں؟ لفظ ’’تمہارا شرع‘‘ اس کا قرینہ ہے، نیز ردّ کی دلیل کہ اس سے ملنے میں الخ بتلا رہی ہے کہ شرع کا حکم محلِ خوف فتنہ میں ہے۔ اور یہاں یہ خوف نہیں اس لیے حکم شرع یہ نہیں، نیز یہ قول کہ اور کسی سے پوچھوں گی دال ہے کہ نقل حکم میں آپ کو خاطی سمجھا، نہ یہ کہ حکم کو رد کیا، پس کفر ثابت نہیں ہوا، اور نکاح پہلے سے ثابت ہے، پس بقاعدۂ الیقین لا یزول بالشک نکاح باقی ہے، ہاں ورع کا مقتضا یہ ہے کہ تجدید کر لی جائے، جب قائلہ میں آثار انسانیت کے دیکھے جاویں۔‘‘

مالا بد منہ میں ہے:

’’اگر کسے کلمہ کفر عمداً گفت لیکن اعتقاد بکفر نہ کرد، بعض علماء گفتہ اند کہ کافر نہ شود کہ کفر از اعتقاد تعلق دارد، و بعضے گفتہ اند کہ کافر شود کہ رضاست بکفر۔‘‘ (ص: 145، بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ: 2/13)

امداد الاحکام (1/141) میں ہے:

’’الجواب: قال في الخلاصة: الجاهل إذا تكلم بكلمة الكفر ولم يدر أنها كفر، قال بعضهم لا يكون كفراً ويعذر بالجهل وقال بعضهم يصير كافراً، ومنها أنه من أتي بلفظة الكفر وهو لم يعلم أنها كفر، إلا أنها أتى بها عن اختيار يكفر عند عامة العلماء خلافاً للبعض ولا يعذر بالجهل، أما إذا أراد أن يتكلم فجرى على لسانه كلمة الكفر والعياذ بالله من غير قصد لا يكفر (4/383)، وفي الدر: واعلم أنه لا يفتٰی بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة، قال الشامي: وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها بدليل ما صرحوا من أنه إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان …. لا يكفر بينه و بين ربه … إلى أن قال: نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفراً اتفاقاً يبطل العمل والنكاح وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح، وظاهره أنه أمر احتياط. (3/446)

صورت مسئولہ میں عورت کا ایمان زائل نہیں ہوا، نہ نکاح باطل ہوا کیونکہ عورتیں ایسے الفاظ اپنے محاورہ اور عادت کے طور پر استعمال کرتی ہیں، کفر کی نیت سے نہیں استعمال کرتیں، نیز بعض دفعہ جھاڑو مار کے لفظ سے اپنے آپ کو کوسنا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح نماز کو روگ اور بوجھ کہنے سے اپنے اوپر بوجھ کا ہونا مقصود ہوتا ہے، اس لیے ا س سے کفر لازم نہیں آتا۔

فی العالمگیرية: ولو قال عند مجيء شهر رمضان آمد آں ماه گراں إن قال ذلك تهاوناً بالشهور المفضلة يكفر، وإن أراد به التعب لنفسه لا يكفر. (3/163)

مگر عورتوں کو آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کر دی جائے، احکام شرعیہ کی بابت ایسے الفاظ نہ بولا کریں اور احتیاطاً توبہ و تجدید نکاح کر لیں تو بہتر ہے۔‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved