• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مدرسہ کے فنڈ سے اسکول چلانا

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ: مزاج بخیر۔

مندرجہ ذیل مسئلے سے متعلق آنجناب کی رائے درکار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ

جامعہ دار التقویٰ کے ما تحت ایک شعبہ اسکول کا قائم کیا گیا ہے، جو فی الحال چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک ہے۔ اس اسکول میں پڑھنے والے طلباء کا فارغ ہونے کے بعد مدرسہ یعنی درس نظامی میں داخلہ لینا ضروری نہیں ہے، لیکن ہمارے پیشِ نظر یہ ضرور ہے کہ اس اسکول سے فارغ ہونے والا بچہ یا تو مدرسہ میں داخلہ لے اور اس کے لیے ترغیب بھی چلتی رہتی ہے، اور یا کم از کم اس کی کسی حد تک دینی تربیت ہو جائے۔

اس اسکول میں عمومی نصاب تو وہی ہے جو عام سرکاری اسکولوں کا ہے۔ البتہ کچھ کتابیں دینی تربیت کے لحاظ سے خود ادارے کی طرف سے بھی شامل ہیں۔

جس عمارت میں یہ اسکول شروع کیا گیا ہے وہ فی الحال مدرسے کی ہی ملکیت ہے۔ اور اس اسکول کا اس وقت تک جو خرچہ ہو رہا ہے اس کی ادائیگی زیادہ تر مدرسے ہی کے فنڈ سے کی جا رہی ہے۔ البتہ کچھ رقم فیسوں کی مد میں بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ مثلاً فی الحال اسکول کا ماہانہ بجٹ تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار روپے ہے، جس میں سے تقریباً 25، 20 ہزار روپے فیسوں کی مد میں جمع ہوتا ہے اور باقی مدرسہ کے فنڈ میں سے دیا جاتا ہے۔

اس ساری تفصیل کے پیشِ نظر آنجناب سے شرعی رہنمائی کی درخواست ہے کہ ہمارا یہ اقدام شرعاً درست ہے یا نہیں؟ خلجان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس اسکول میں زیادہ تر رقم وہ خرچ کی جا رہی ہے جو لوگوں نے مدرسے کے عنوان سے ہمیں دی ہے۔ نیز عمارت بھی مدرسہ کی استعمال ہو رہی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مدرسے کے فنڈ سے اور مدرسے کی عمارت میں اسکول چلانا جائز نہیں۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ ’’مدرسہ‘‘ کے عنوان سے جو عمارت یا چندہ مدرسے کو دیا گیا ہے یا دیا جاتا ہے اس کو ایسے علوم کی تعلیم کے اخراجات کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ خرچ کرنا ضروری ہے جن علوم کا تعلق دین سے ہو، خواہ یہ تعلق بلا واسطہ ہو یا بالواسطہ ہو جیسے منطق و فلسفہ کی تعلیم یا وفاق کے نظام میں متوسطہ کی تعلیم کہ ان علوم کی تعلیم  کا تعلق اگرچہ بلا واسطہ تو دین کے ساتھ نہیں ہے لیکن بالواسطہ ان کا تعلق دین کے ساتھ ہے۔ کیونکہ وفاق کے نظام میں متوسطہ کی تعلیم انہی طلباء کو دی جاتی ہے جنہوں نے آگے درس نظامی کرنا ہو۔ گویا یہ دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء کو صرف ایک استعدادی تعلیم دینا ہے۔ ہاں کوئی طالب علم اپنی مرضی سے  صرف متوسطہ پڑھ کر چلا جائے اور وہ اپنی تعلیم کو آگے جاری نہ رکھ سکے تو یہ ایک علیحدہ بات ہے، ورنہ وفاق کے نظام میں مدرسے میں متوسطہ کی تعلیم کا تعلق بالواسطہ دین کے ساتھ ہی ہے۔

جبکہ مذکورہ صورت میں جو اسکول کا نظام ہے اس کا تعلق بلا واسطہ تو دین کے ساتھ ہے ہی نہیں جبکہ بالواسطہ بھی اس کا تعلق دین کے ساتھ نہیں۔ کیونکہ اس اسکول سے پڑھنے والے طلبہ کے لیے یہ لازمی نہیں کہ وہ درس نظامی میں داخلہ لیں۔ لہذا اس اسکول کی تعلیم کو مدرسے کے تابع کہنا اور بالواسطہ اس کا تعلق دین یا دینی تعلیم کے ساتھ سمجھنا درست نہیں۔ باقی دینی تربیت کے لیے کچھ کتابیں داخل نصاب کر دینا یا ان کی دینی تربیت کا کچھ انتظام کرنا اس اسکول کو مدرسے کے تابع بنانے کے لیے کافی نہیں۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

جواب درست ہے۔ مسئلہ کا حل اس میں بھی ہے کہ جو بچے سکول میں پڑھنے کے لیے آئیں ان کے والدین سے یہ عہد لیں کہ وہ بچے کو دینی تعلیم جامعہ دار التقویٰ کے مدارس میں دلوائیں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved