• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مدرسہ کی جگہ کرایہ پر دینا

  • فتوی نمبر: 8-364
  • تاریخ: 15 اپریل 2016

استفتاء

محترم مفتی صاحب! ایک آدمی نے ایک مدرسہ وقف کیا، مدرسہ چلا نہیں۔ فی الحال اس مدرسہ میں کچھ طالبات جن کی تعداد تقریباً 20 ہے پڑھنے کے لیے آتی ہیں۔ ان کو پڑھانے کے لیے دو معلمات مقرر ہیں۔ معلمات اور طالبات دونوں غیر رہائشی ہیں، سبق کے لیے آتی ہیں اور سبق پڑھ کر واپس گھروں کو چلی جاتی ہیں۔ معلمات کی تنخواہ مقرر ہے۔

مدرسہ کی آمدن کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں، لوگ تعاون کرتے ہیں لیکن وہ اتنا زیادہ نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے معلمات کی تنخواہوں کی ادائیگی میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔ مدرسہ کی کچھ جگہ فارغ ہے، کیا اس جگہ کو کرایہ پر دیا جا سکتا ہے؟ تاکہ معلمات کی تنخواہیں سہولت سے ادا کی جا سکیں۔

نوٹ: 1۔  آمدن کم ہے، یہاں تک کہ تنخواہ پوری کرنے کے لیے مانگنے کی نوبت آ جاتی ہے۔

2۔  پڑھانے کے لیے دو معلمات کا ہونا ضروری ہے، ایک معلمہ سے گذارہ نہیں چلتا۔

3۔ مذکورہ جگہ گودام کے طور پر استعمال ہو گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مدرسہ کی فارغ جگہ کو  مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے کرایہ پر دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھا جائے:

1۔ کرایہ پر دینے کا معاملہ زیادہ لمبی مدت کے لیے نہ کیا جائے۔

2۔ مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ پر دیا جائے۔[1]

في المحيط البرهاني (9/ 31):

قال الصدر الشهيد في واقعاته: المختار أن يفتى في الضياع بالجواز في ثلاث سنين إلا إذا كانت المصلحة في عدم الجواز، و في غير الضياع يفتى بعدم الجواز فيما زاد على السنة، إلا إذا كانت المصلحة في الجواز، و هذا أمر يختلف باختلاف المواضع، و اختلاف الزمان، و كان القاضي الإمام أبو علي النسفي يقول: لا ينبغي للمتولي أن يؤاجر أكثر من ثلاث سنين، و لو فعل جازت الإجارة و صحت و على هذا القول لا يحتاج إلى الحيلة التي ذكرناها في الإجارة الطويلة.

و في الهندية (2/ 419):

و كان القاضي الإمام  أبو علي النسفي رحمه الله تعالى يفتي بأن المتولي لا ينبغي له أن يؤاجر أكثر من ثلاث سنين و لو آجر جازت الإجارة و هذا قريب بما هو المختار لأن فعله يدل على رؤية المصلحة كذا في الغياثية.

و في التاتارخانية(5/ 511):

و كان القاضي أبو علي النسفي يقول: لا ينبغي للمتولي أن يؤاجر أكثر من ثلاث سنين و لو فعل جازت الإجارة و صحت و في العتابية: و هذا أقرب و هو المختار.

و في الهندية: (2/ 419):

و لا يجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل كذا في محيط السرخسي.

فتاویٰ رحیمیہ (9/ 88) میں ہے:

’’سوال: ہمارے ہاں عربی مدرسہ نہیں تھا۔ ایک سخی صاحب مال نے اپنی طرف سے مدرسہ بنوا دیا۔ لیکن روز بروز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے سے وہ مدرسہ نا کافی نظر آیابچوں کو بٹھانے میں تکلف تھی جس کی بناء پر جدید وسیع مدرسہ بنایا گیا۔ فی الحال بچے اس نئے مدرسہ میں تعلیم لیتے ہیں۔ لہذا اس سختی سرمایہ دار کا بنایا ہوا مدرسہ بند پڑا ہے، تو اس کو کرایہ پر دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اس کی کرایہ کی رقم جدید مدرسہ میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب: قدیم مدرسہ سخی مالدار نے جس نیت اور مقصد سے بنایا ہے اس کا خیال رکھ کر جہاں تک ممکن ہو اس سے وہی کام لیا جائے، لڑکوں کا نہیں تو لڑکیوں کا مدرسہ چلائے ، اگر اس کی بھی ضرورت نہ ہو اور بے کار پڑا ہے تو کرایہ پر دے سکتے ہیں اور اس کی رقم مدرسہ کے خرچ میں لے سکتے ہیں۔ ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1] ۔ مزید دلائل:

تبویب (فتویٰ نمبر:  6/ 197، کتاب الوقف) میں ہے:

’’ گذارش ہے کہ پانچ چھ سال پہلے سے میرے پاس بچیاں پڑھتی ہیں اور عورتیں بھی، پہلے  میں نیچے بیٹھک میں عورتوں کو پڑھاتی تھی، استانی وغیرہ آتیں تھیں، پھر عورتیں زیادہ ہو گئیں تو کسی عورت نے چھت پر دو کمرے، باتھ روم اور وضو کی جگہ بنوا دی، پھر اوپر کلاس لگتی رہی۔ پھر میں بہت زیادہ بیمار ہو گئی تو عورتیں آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں۔ اب بہت  تھوڑی سی آتیں ہیں جو کہ نیچے ہی پڑھا لیتی ہوں، اب اوپر کمرے خالی پڑے ہیں اور کمروں کے آگے شیڈ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے دروازے ٹوٹ گئے ہیں اور چھت پر پانی نیچے جانے کا جہاں راستہ تھا وہاں انہوں نے غسل خانہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے چھت پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے اور پانی چھت کے اندر جانا شروع ہو گیا ہے۔

اب ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ شیڈ ڈلوائیں اور دروازے نئے لگوائیں اور چھت صحیح کروائیں، اب آپ سے پوچھنا تھا کہ کیا ہم اوپر کے پورشن کو کرائے پر دے کر اس کے کرائے سے یہ کام کروا سکتے ہیں یا نہیں؟ اور وہ کرایہ گھر میں استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی حل بتا کر ہماری پریشانی ختم فرمائیں۔

وضاحت مزید: جس صاحب نے یہ کمرے بنوائے تھے ان سے ایک دفعہ ہم نے پوچھا تھا کہ ان کیا کیا جائے؟ تو انہوں نے کہا تھا کہ فروخت کر کے نادار بچیوں کی شادیوں میں خرچ کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کی بیوی سے میں نے  یو پی ایس اپنے لیے استعمال کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ استعمال کر لیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ کمرے ثواب کی نیت سے بنوائے گئے ہیں اس لیے اپنے استعمال میں نہیں لا سکتی، بلکہ ثواب کے تسلسل کے لیے ان کمروں میں کسی استانی کو ملازم رکھ کر دینی تعلیم کا کام لے سکتی ہیں۔

دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمروں کو کرائے پر دے دیا جائے جس سے ان کی مرمت کروائی جائے اور اس کے علاوہ بعد کے کرائے کو بانی کی منشاء کے مطابق نادار بچیوں کے مصرف میں لگایا جائے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم‘‘

امداد الاحکام  (3/ 599) میں ہے:

’’سوال: ایک شخص نے اپنی مملوکہ زمین ’’مدرسہ انجمن اسلام‘‘ کے نام سے سے دینی تعلیم کے لیے وقف کر دی، اور چھ متولی مقرر کیے، جماعت نے چندہ کر کے مدرسہ قائم کیا۔ اور ایک عرصہ سے کلام مجید اور ابتدائی دینی تعلیم جاری ہے، سرکار نے پڑوس کی زمین میں ایک سکول برائے تعلیم انگریزی ہندؤوں کے لیے کھول دیا، مکان اسکول کی قلت گنجائش کی وجہ سے مشترک ٹیچر نے متولیوں سے چھ ماہ کے لیے مدرسہ عاریتاً مانگا، تاکہ 9 بجے سے 12 بجے یا 2 بجے تک کفار کے لڑکے بشمول مسلم بچوں کے انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ متولیین نے آپس میں مشورہ کیا، نصف دینے پر راضی ہوئے اور نصف ناراض، آخر کار جماعت نے تقاضا کیا کہ عام جلسہ کیا جائے اور جو جماعت کی رائے ہو اس پر عمل کیا جائے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے مذکور تین متولیان کے جماعت ناراض رہی جس کی وجوہات جماعت نے حسب ذیل بیان کیا:

1، واقف نے برائے اہل اسلام، دینی تعلیم کے لیے وقف کیا، چنانچہ مدرسہ بنایا گیا، اب جماعت کو اختیار ہے کہ ہر وہ عمل جو خلاف مذہب اورمقصود ہو اس سے متولیین اور خود واقف کو بھی منع کرے۔

2۔ چونکہ مدرسہ مسلم بچوں کے لیے  ہے، اس لیے کفار کو اس مدرسہ کا عاریتاً دینا تاکہ وہ دنیوی فائدہ حاصل کرے نا جائز ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کا مصرف نہیں ہے۔

3۔ غضب یہ ہے کہ مسلمان بچے قرآن پڑھنے والوں کے لیے کہا گیا کہ وہ  کفار کے بچوں کے آنے سے پہلے کلام پاک کو لے کر مدرسہ خالی کر کے مدرس کے مکان کے برآمدہ میں بیٹھ کر دینی تعلیم پائیں۔ اور یہ استخفاف دین اور استخفاف کلام اللہ و علم دین ہے۔

4۔ اور ہم نے کئی دفعہ متبرک ایام میں اور رمضان میں تراویح وغیرہ پڑھی ہے گو کہ ایسا کرنے سے اس کا حکم مسجد کا سا نہیں ہوتا، تاہم ہماری غیرت اسلامی اور ہمارا ایمان اس بات کو گوارا نہیں کر سکتا کہ جس جگہ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے سجدہ کیا ہو، اس جگہ کو کفار اپنے دنیوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مصرف میں لائیں۔

5۔ اگرچہ بعض متولین شریعت کی اجازت کی دلیل بھی لائیں تاہم عامۂ جماعت کے خلاف مرضی جواز پر عمل نہیں کر سکتے۔ نصف مذکور متولین مع واقف و کافر ٹیچر کے ایک مولوی صاحب کے پاس گئے، اور واقعہ سنا کر فتویٰ چاہا، کہ آیا ہم اسلامی مدرسہ کو سرکاری اسکول کے بچوں کی تعلیم کے لیے (جو کثرت کفار اور قلت مسلمین پر مشتمل ہے) کچھ مدت کے لیے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ تو اعلیٰ حضرت نے فتویٰ دیا کہ جائز ہے کوئی حرج نہیں، انگریزی پڑھ سکتے ہیں، چھ مہینہ تو کیا چار برس کے لیے بھی دیدو، سرکار کی مدد کرو۔ اس میں فائدہ ہے، کفار کے بچوں کا دینی مدرسہ کو اپنے مصرف میں لانا، اور انگریزی پڑھنے پڑھانے کی دلیل میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضور رسول اکرم ﷺ نے کفار کو مسجد میں مہمان رکھا، اور ایک کافر نے پائخانہ بھی کر دیا تھا، وغیرہ وغیرہ، چہ جائیکہ یہ مدرسہ ہے نہ کہ مسجد۔

اب علماء کرام سے دست بستہ عرض ہے کہ مع دلائل شریعت غرا جواب سے سرفراز فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب: اگر مدرسہ میں جگہ زائد ہو، اور کرایہ پر دیدیا جائے تو جائز ہے، ورنہ طلبہ دین کو پریشان کر کے کسی اور کو وہ مکان کرایہ پر دینا بھی جائز نہیں، اور بلا کرایہ دینا تو کسی حال میں جائز نہیں، جگہ زائد ہو یا نہ ہو، بچے کفار کے ہوں یا مسلمان کے۔ اور یہ مسئلہ بالکل ظاہر ہے، کیونکہ واقف نے جس شرط پر وقف کیا ہو، اس کی رعایت کرنا واجب ہے، جیسا کہ تمام کتب فقہ میں موجود ہے۔ اور جو دلیل جواز کی سوال میں لکھی ہے ، اس کو اس مقام سے کوئی تعلق نہیں۔ مسجد نبوی (علیٰ صاحبہا الصلاۃ و السلام) میں کفار کا آنا اسلام کی باتیں سننے کے واسطے تھا، نہ کہ اپنا کوئی دنیوی کام کرنے کو۔ سو اب بھی اگر کوئی کافر اسلام کی خوبیاں دریافت کرنے مدرسہ میں یا مسجد میں آئے تو کوئی منع نہ کرے گا، بلکہ جملہ اہل اسلام بہت خوش ہوں گے۔ و اللہ اعلم

اگر کرایہ پر دینے سے بھی یہ خطرہ ہو کہ آئندہ مدرسہ کو یہ زمین واپس نہ ملے گی، یا طلبۂ دین پر ان کے اخلاق و اعمال کا بر اثر پڑے گا تو کرایہ سے دینا بھی جائز نہیں۔ (ظفر احمد عفا اللہ عنہ) ‘‘

تبویب (فتویٰ نمبر: 1/ 23، کتاب البیوع ) میں ہے:

’’ادارہ احیاءالعلوم بلال پارک لاہور ایک وقف ادارہ ہے ایک مسجد اور ایک حفظ و ناظرہ کا مدرسہ اس کے زیر انتطام چل رہا ہے مسجد میں تبلیغی جماعت کا شب جمعہ کا اجتماع سالہا سال سے ہو رہا تھا ۔ 1981ءمیں محسوس کیا گیا کہ جگہ کی بہت قلت ہے لہذا مسجد کے ارد گرد کچھ سرکاری زمین کے لئے گورنمنٹ کو درخواست دی گئی جو منظور کر لی گئی اور گورنمنٹ نے رعایتی نرخوں پر یہ زمیں ادارہ کو فروخت کر دی ۔اس کا اکثر حصہ ضروریات کے لئے زیر استعمال لے لیا گیا مگر زمین کا ایک ٹکڑا خالی بغیر تعمیر کے رہا ۔ تین چار سال پہلے شب جمعہ کے اجتماع کی جگہ اس مسجد سے بدل کر شہر کے کنارے پر طے ہو گئی ۔ جس کی وجہ سے یہ زمین کا بقایا ٹکرا ادارہ کی ضروریات سے فاضل ہے ادارہ چاہتا ہے کہ اس زمین کے ٹکڑے کو یا تو فروخت کر دیا جائے یا کسی اور پارٹی کو لیز پر دے دیا جائے اس میں کوئی شرعی امر مانع تو نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

واضح رہے کہ وقف کے لازم اور مکمل ہو جانے کے بعد اس کو فروخت کرنا جائز نہیں۔            جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فاذا تم و لزم لا یملک و لا یملک و فی الشامية قوله لا یملک ای لا یکون مملوکا لصاحبه و لا یملک ای لا یقبل التملیک لغیره بالبیع و نحوه لاستحالته تملیک الحارج عن ملكه( 6/ 540)

نیز وقف زمین کولیز (اجارہ طویلہ)پر دینے کی کچھ شرائط ہیں اگر ان شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے وقف کی زمین لیز پر دی جائے تو درست ہے ورنہ تین سال سے زائد مدت کے لئے وقف کی زمین کو کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔وہ شرائط یہ ہیں:

1۔ لیز پر دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ اس وقف شدہ زمین سے معتد بہ فائدہ اٹھانے کا نہ ہو ۔

2۔ کرایہ دار زمین کی اجرت مثل یعنی مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ ہمیشہ ادا کرتا رہے یعنی اگر مارکیٹ ریٹ بڑھ جائے تو کرایہ دار بھی مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ بڑھا دے۔ نیز اجرت مثل میں زمین کو کرایہ پر دینے کے وقت کی حالت کا اعتبار ہو گا ۔ یعنی زمین کی وہ حالت جو کرایہ دار کے عمل سے پیدا ہوئی ہے اس کا اعتبار نہ ہو گا۔

3۔ اس میں وقف کا کوئی ضرر محسوس نہ کیا جائے مثلا اجارہ پر لینے والا بد معاملہ شخص ہو یا مفلس ہو یا اس سے وقف پر نا جائز قبضہ و غلبہ کا اندیشہ ہو ۔ بلکہ اس میں وقف کا فائدہ ہو۔                          فقط واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved