- فتوی نمبر: 13-228
- تاریخ: 07 فروری 2019
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک مسجد ہے جو بہت مقروض ہے مسجد کے قرضہ کو اتارنے کےلیے مدرسہ کےپیسے بطور قرض دیئے جاسکتے ہیں ؟
وضاحت مطلوب ہے:
۱۔کیا مسجد اورمدرسے کا متولی ،انتظامیہ ایک ہی ہے یا الگ الگ ؟
۲۔قرض کی واپسی کی یقین دہانی کس حد تک ہے؟
جواب وضاحت :مسجد اور مدرسہ کامتولی ایک ہی ہے اورمسجد اور مدرسہ ایک تھا ہیں ۔
۲۔قرض کی واپسی کی یقین دہانی سو فیصد ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اگر مدرسے کو فوری ضرورت نہیں اورسائل کے مطابق قرض کی وصول بھی یقینی ہے تو مدرسے کی رقم سے مسجد کا قرضہ اتار سکتے ہیں۔
البحر الرائق (5/ 128)
وعلى الإمام أن يجعل لكل نوع من هذه الأنواع بيتا يخصه فلا يخلط بعضه ببعض لأن لكل نوع حكما يختص به فإن لم يكن في بعضها شيء فللإمام أن يستقرض عليه من النوع الآخر ويصرفه إلى أهل ذلك ثم إذا حصل من ذلك النوع شيء رده إلى المستقرض منه
في الدر 4/219
وعلي الامام ان يجعل لکل نوع بيتا يخصه وله ان يستقرض من احدهما ليصرفه للآخر
في امداد الاحکام:3/227
و اما اقراض ما فضل من الوقف قال في وصايا النوازل رجوت ان يکون ذالک واسعاً اذا کان احرز لغلته امساکه فان فضل من غلته فصرف الفضل الي حوائجه علي ان يرده اذا احتاج الي العمارة قال: لايفعل ذالک ويتنزه غاية التنزه فان فعل مع ذالک ثم انفق فيه ان ذالک يبرأه عما وجب عليه اه۔ (ج؍۴،ص؍۴۲۳)
اصل یہ ہے کہ وقف کی فاضل رقم کسی کو قرض دیدینا اس وقت جائز ہے جبکہ قرض دینے میں رقم کی حفاظت متوقع ہو اور ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو پس اگر متولیان سورتی مسجد کو وقف مسجد کی آمدنی بطور قرج کے وقف ملا ابراہیم کے مقدمہ میں لگاتے ہوئے رقم کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ تھا بلکہ امید قوی وصولیابی کی تھی تو اس صورت میں متولیان مذکور خائن نہیں ہوئے کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ دوسرے وقت کے برباد ہونے کا اندیشہ ہو اس کی حفاظت کے لئے وقفِ مسجد کی فاضل آمدنی اس میں قرض کے طور پر لگا دینا جائز ہے۔ قال في العالمگيرية: مال موقوف علي المسجد الجامع واجتمعت من غلاتها ، ثم نابت الإسلام نائبة واحتيج إلي النفقة في تلک الحادثة ، إن لم يکن للمسجد حاجة للحال فللقاضي أن يصرف في ذالک لکن علي وجه القرض فيکون ديناً في مال الفيء اه۔ (ج؍۴،ص؍۲۴۲)قلت: وخوف ضياع وقف علي مصالح المسلمين ملحق بنوائب الاسلام والمتولي المنصوب من الحکومة کالقاضي۔اور اگر اس کو اسلامی ضرورت میں قرض دینا نہ تسلیم کیا جائے تو پھر بھی جائز ہے جبکہ متولیان کو رقم کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور وصول یابی کی قوی امید ہو آخر سورتی مسجد کا روپیہ بنک میں بھی تو جمع کیاگیا ہے اور وہ بھی بنک کو قرض ہی کے طور پر دیا گیا کیونکہ بعینہٖ رقم بنک میں کہاں محفوظ رہتی ہے لیکن چونکہ اندیشہ رقم کے ضائع ہونے کا نہیں بلکہ وصولیابی کی قوی بطور قرض کے لگادی جائے جس سے وصولیابی کی قوی امید ہے۔ رہا یہ سوال کہ عدالت صرف قانونی خرچہ دلاتی ہے اس سے زائد رقم صرف ہوئی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار وقف ملا ابراہیم ہی ہے جس کی حفاظت کے لئے یہ روپیہ لگایا گیا بشرطیکہ وہ زائد خرچہ بھی ضرورت اور مجبوری کے درجہ میں ہوا ہو محض حکام کی خوشامدی میں نہ ہو۔ (ازتھانہ بھون خانقاہ امدادیہ)
فتاوی دارالعلوم دیوبند(13/466)میں ہے:
جواب:اس صورت میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زائد آمدنی مسجد کی مدرسہ وغیرہ مصارف خیر میں بطریق قرض صرف کی جاوے اوربعض روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بلاقرض کے بھی صرف کرنا درست ہے۔
قال الشيخ الامام (محمدبن الفضل)ماکان من غلة وقف المسجد الجامع يجوز للحاکم ان يصرفه الي ذلک علي وجه القرض اذا لم تکن للمسجد حاجة اليه وفي الحموي قال بعضهم الذي فيها لايصرف القاضي الفاضل من وقف المسجد ….رقيل ويعارضه مافي فتاوي الامام قاضيخان في ان الناظر له صرف قائض الوقف الي جهات بر بحسب مايراه
اس عبارت حموی سے واضح ہے کہ زائد آمدنی مسجد کو جہات بر میں بلاقرض کے بھی صرف کرنا درست ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved