- فتوی نمبر: 17-81
- تاریخ: 18 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک مسئلہ کے بارے میں دریافت کرنا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنا زیور اللہ کی راہ میں وقف کرنے کے نیت کرے اور اس نیت کو کسی کے سامنے ظاہر بھی کردے،کیا کچھ عرصہ بعد اس وقف چیز میں عورت کو ردوبدل کرنے کا کچھ اختیار ہوتا ہے ؟ کچھ کمی بیشی کر سکتی ہے یا کسی مجبوری کی وجہ سے وہ چیز اللہ کی راہ میں دے نہ سکے تو گناہ گار ہوگی ؟
وضاحت مطلوب ہے: ارادےکے اظہار کے الفاظ کیا تھے؟
جواب وضاحت :میں نےاپنےوالدین کے طرف کا زیور حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے لیے رکھا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ الفاظ سے یہ زیور وقف نہیں ہوا ،کیونکہ نہ تو مذکورہ الفاظ وقف کے ہیں اور نہ ہی شخص متعین وقف کا محل ہے ۔نیز منقولی چیزوں کے وقف کااگرعرف نہ ہو تو ان کا وقف بھی درست نہیں اور ہمارے ہاں زیورات کے وقف کاعرف نہیں،لہذامذکورہ خاتون اس زیور میں ردوبدل اور کمی بیشی کر سکتی ہے اور اسے اپنے استعمال میں لا سکتی ہے۔
شامی 6/559 میں ہے:
ظاهر مامر في مسالة البقره اعتبار العرف الحادث فلا يلزم كونه من عهد الصحابة وكذا هو ظاهر ما قدمناه آنفا من ذيادة بعض المشايخ اشياء جرى التعامل فيها وعلى هذا فالظاهر اعتبار العرف في الموضع او الزمان الذي اشتهر فيه دون غيره فوقف الدراهم متعارف في بلاد الروم دون بلادناووقف الفأس والقدوم كان متعارفا في زمن المتقدمين ولم نسمع به في زماننا فالظاهر انه لا يصح الآن ولئن وجد نادراً لا يعتبر لما علمت من ان التعامل هو الاكثر استعمالا فتأمل
في البحر الرائق5/ 317
واما ركنه الألفاظ الخاصة الدلالة عليه وهي ستة وعشرون لفظا ،الاول ارضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ولا خلاف فيه—–
السادس وعشرون جعلت حجرتي لدهن سراج المسجد و لم يزد عليه صارت الحجرة وقفا على المسجدكما قال وليس للمتولي أن يصرف إلي غير الدهن كذا في المحيط، السابع والعشرون ذكر قاضيخان من كتاب الوصايا رجل قال ثلث مالي وقف ولم يزد على ذلك قال ابونصر ان كان ماله نقدا فهذا القول باطل بمنزلة قوله هذه الدرهم وقف وان كان ماله ضياعا تصيروقفا على الفقراء
فتاوی شامی6/538میں ہے:
وانه لا خلاف في بطلانه لو اقتصر على لفظ موقوفة مع التعيين كموقوفة على زيد
© Copyright 2024, All Rights Reserved